نظامِ سلطنت رعایا و حکمرانوں کے باہمی تعاون سے ہی
چلتا ہے۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو حُکّام اپنی رعایا کے ساتھ مخلص نظر ہی
نہیں آتے حالانکہ ہر نگران سے اس کے ماتحت افراد کے متعلق سوال ہو گا اس لیے ہر
ایک کو اپنے ماتحتوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہے تاکہ آخرت میں سرخروئی نصیب ہو۔
آئیے رعایا کے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں:
1)خیر خواہی کرنا: حکام کو اپنی رعایا سے محبت و خیر
خواہی سے پیش آنا چاہیے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ جسے اللہ تعالیٰ
کسی رعیت کا والی بنائے پھر رعایا کی خیر خواہی نہ کرے مگر وہ جنت کی خوشبو نہ
پائے گا۔ (مسلم، ص 78، حدیث: 366)
2) عدل و انصاف کرنا: آقا
کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ
وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل و انصاف
سے کام لیتے تھے۔ (مسلم، ص 783، حدیث: 4721 ملتقطا)
3) ظلم وزیادتی سے بچنا: رعایا
کا حق ہے کہ اس پر ظلم و جبر سے بچا جائے۔ حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ وہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لڑکے! میں نے رسول
اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک بد ترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پر ظلم کریں پس
تو اپنے آپ کو ان میں شامل ہونے سے بچا۔ (فیضانِ ریاض الصالحین، 5/657)
4) حاجت و ضرورت پوری کرنا: حضرت
عمرو بن مرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ
کو فرماتے ہوئے سنا کہ جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ
مسلمان کی حاجت و ضرورت کے سامنے حجاب کر دے تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی
کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر کر
دیا۔ (مراۃ المناجیح، 5/419)
5) دھوکہ دینے سے بچنا: محبوب
رب الانعام ﷺ نے فرمایا: جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس
حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ خیر خواہی کے ساتھ
اُن کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ مسلم شریف کی روایت میں
یہ ہے کہ جو مسلمانوں کے اُمور پر والی بنایا جائے، پھر اُن کے لیے کوشش نہ
کرے اور اُن سے خیر خواہی نہ کرے تو وہ اُن کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (فیضانِ
ریاض الصالحین، 5/654)