پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت سجاد حسین مدنیہ،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
پودا لگانا
ماحول اور انسانیت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ہر شہر کی آب وہوا مختلف ہوتی
ہے،اسی کے مطابق پودے لگائے جائیں تو زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ پودے لگانے سے پہلے
ان کے ماہرین مثلا باغبان وغیرہ سے مشاورت کر لی جائے کیونکہ بعض پودوں کے لگانے
کا طریقہ مختلف ہوتا ہے،ان کے لیے مخصوص پیمائش پر گھڑے کی کھدائی اور اس گھڑے میں
مخصوص پانی کی مقدار رکھنا بھی ضروری ہوتی ہے۔
ماہرین سے
مشاورت کے بعد پودے لگائیں گے تو ان شاء اللہ کثیر فوائد حاصل ہوں گے اور دیکھتے
ہی دیکھتے ساری دنیا میں ہریالی ہوگی،بالخصوص وطن عزیز پاکستان کی ہر گلی محلے میں
درختوں اور پودوں کی یہ ہریالی دیکھ کر عشاقانِ مدینہ گنبد خضرا کی یاد تازہ کریں
گے۔
پودے لگانا
ہمارے پیارے آقا ﷺ کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی پودے لگانے کی
ترغیب اور فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ پودے لگانے کے فضائل پر تین فرامین آخری نبی ﷺ ملا
خظہ کیجئے۔
1۔ جو مسلمان
درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس
کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)
2۔ جس نے کوئی
درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا
تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس(لگانے والے)کے لیے صدقہ
ہے۔ (مسند امام احمد، 5/574، حدیث:16586)
3۔ جس نے کسی
ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی گھر بنایا یا ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا،جب تک اللہ پاک کی مخلوق میں سے کوئی ایک
بھی اس میں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو،اس (لگانے والے کو)ثواب ملتا رہے گا۔ (مسند امام
محمد، 5/309،حدیث 15616)
ان احادیث سے
ثابت ہوا کہ درخت لگانا بہت اجرو ثواب کا کام ہے۔
شجر
کاری کے معاشی اور معاشرتی فوائد: شجر کاری (یعنی درخت لگانے)کے ذریعے
بہت سے معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں، مثلا درخت لکڑی کے حصول کا ذریعہ ہیں اور لکڑی کا انسانی
ضروریات کو پوری کرنے میں کلیدی کردار ہے،فرنیچر، کھڑکیاں، دروازے، وغیرہ بنانے کے
لیے اب بھی لکڑی کا ہی استعمال ہوتا ہے۔
انسانی صحت کے
لیے پھلوں اور میوہ جات کی اہمیت کا بھی کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا انکار نہیں کر
سکتا اور یہ درخت ہی ہیں جو انسان کو
انواع واقسام کے پھل اور میوے مہیا کرتے ہیں بلکہ کئی پرندے اور جانور بھی ان
پھلوں کو کھا کر ہی جیتے ہیں۔
مسواک کرنا
ہمارے پیارے آقا ﷺ کی سنت ہے،اس سنت کی ادائیگی کے لیے بھی شجر کاری کرنی ہو گی
کیونکہ مسواک بھی درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
پودے
لگانے کی احتیاطیں: پودے لگانے کے بعد انکی نگہداشت رکھنا،ان کو وقت پر
پانی دینا اور ان کے درخت بن جانے تک خوب احتیاط کرنا ضروری ہے۔اگر ایسا نہ کیا
گیا تو یہ پودے چند ہی دنوں میں مرجھا کر ختم ہو جائیں گےیا پھر کسی جانور کی غذا
بن جائیں گے۔
یاد
رکھیں!پودے کی مثال چھوٹے بچے کی طرح ہے جس طرح والدین چھوٹے بچے کی ہر چیز کا
خیال رکھتے ہیں اور خوب تن دہی سے اس کی پرورش کرتے ہیں، اگر تھوڑی سی بےتوجہی ہو
جائے تو بچہ کئی بیماریوں کی زد میں آسکتاہے، اسی طرح پودوں کا بھی معاملہ ہے کہ
انکی درست انداز میں آبیاری نہ کی گئی اور انہیں ایسے ہی لگ کر چھوڑ دیا گیا تو یہ
درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائے گے۔
البتہ جب یہ
پودے تن آور درخت بن جائیں تو پھر انہیں خاص توجہ کی حاجت نہیں رہتی بلکہ درخت بن
جانے کے بعد یہ از خو د باقی رہ سکتے ہیں۔
نیز پودے لگا
نے کے بعد انکی صفائی ستھرائی اور کانٹ چھانٹ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہےتاکہ کسی
کو بھی ان کی شاخوں اور ان سے جھڑنے والے پتوں وغیرہ سے ایذا نہ ہو۔
اہل
فارس کی طویل عمر ہونے کی وجہ: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارسی
کے رہنےوالے تھے۔فارس کے رہنے والے لوگوں کی عمریں طویل ہوتی تھی، اس کی وجہ بیان
کرتے ہوے مفسرین کرام فرماتے ہیں:فارس کے بادشاہ نہروں کی کھدائی اور شجر کاری میں
بہت رغبت رکھتے تھے،اسی وجہ سےان کی عمریں بھی لمبی ہوا کرتی تھیں۔
ایک نبی علیہ
السلام نے فارس کے لوگوں کی لمبی عمر سے متعلق اللہ پاک کی بارگاہ میں استفسار کیا
تو،اللہ پاک نے انکی طرف وحی فرمائی کہ یہ لوگ میرے شہر کو آباد کرتے ہیں، اسی وجہ
سے یہ دنیا میں زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔
حضرت امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی آخری عمر میں کھیتی باڑی کا کام شروع کر دیا تھا۔ (تفسیر
کبیر، 6/367)