ایک وقت تھا
جب کسی کی پلک لرزتی تھی تو دل دھڑک جاتے تھے۔ کسی کا لہجہ بجھتا تھا تو محفلیں
خاموش ہو جاتی تھیں۔ انسان، انسان کے دکھ کا مترجم تھا۔ لیکن اب؟ اب ہر چہرہ جیسے
ایک مقفل صندوق ہے، جس میں جذبے قید ہیں اور زبان پر زنگ آلود تالے۔
یہ جو معاشرہ
ہے پتھروں کا جنگل یہاں بے مروتی ایک عام
شجر کی طرح اگتی ہے، جس کی جڑیں دلوں میں پیوست اور شاخیں تعلقات کو نوچتی ہیں۔
تعریف:
بے
مروتی کا لغوی مفہوم ہے: نرمی، محبت، لحاظ اور ہمدردی کا فقدان۔ یہ رویّہ وہ تیشہ
ہے جو رشتوں کی جڑ کاٹتا ہے، اور وہ دھواں ہے جو دلوں کے آئینے کو دھندلا دیتا ہے۔
بے مروتی ایک
خشک دریا ہے، جس پر خوش گفتاری، دلجوئی اور لحاظ کے قافلے کبھی نہیں گزرتے۔ یہ وہ
زہر ہے جو رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے، مگر احساس کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔
قرآن
و حدیث کی روشنی میں مذمت: اسلام نے حسن سلوک، عفو، اور نرم
گفتاری کو اعلیٰ مقام دیا ہے۔ بے مروتی، اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (پ 1، البقرۃ:83)
ترجمہ: اور لوگوں سے نرمی اور حسن اخلاق سے بات کرو۔
نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ (بخاری، 4/ 100، حدیث: 5997)
اور ایک اور
جگہ فرمایا: مومن نرم خو ہوتا ہے، نرم دل ہوتا ہے، جیسے نرم اونٹ کہ جہاں بٹھایا
جائے بیٹھ جائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 3/88، حدیث:5086)
یہ تعلیمات
واضح کرتی ہیں کہ مروّت اور نرمی صرف اخلاقی فیشن نہیں بلکہ دینی فریضہ ہیں۔ بے
مروتی، درحقیقت، اس اخلاقی نظام کی پامالی ہے جو قرآن و سنت نے تعمیر کیا۔
بے مروتی پیدا
کیوں ہوتی ہے؟ اس کی چند وجوہات یہ ہو سکتی ہیں:
1۔
نفس پرستی: انسان
جب خود کو کائنات کا مرکز سمجھنے لگے تو دوسرے محض پس منظر میں رہ جاتے ہیں۔
2۔
مادیت پرستی: مفادات
کی دوڑ میں انسان رشتوں کو ایک ’سودا‘ سمجھنے لگتا ہے، اور سودے میں جذبات کی
گنجائش نہیں ہوتی۔
3۔
دل کا سخت ہو جانا: قرآن کہتا ہے: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ (پ 1البقرۃ:
74) ترجمہ: پھر تمہارے دل سخت ہو گئے۔
4۔
ادب و تہذیب سے دوری: جب تعلیم صرف ڈگریوں تک محدود ہو جائے اور تربیت کا
سورج غروب ہو جائے تو معاشرہ بے مروتی کی رات میں جاگتا ہے۔
5۔
نفسیاتی زخم: کچھ
لوگ بے مروت اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود بے رحم سلوک کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔
وہ اپنی شکست کا بدلہ معاشرے کی نرمی سے لیتے ہیں۔
تدارک:
بے
مروتی کا علاج محض اخلاقی نصیحتوں سے ممکن نہیں۔ یہ روح کا زخم ہے، جس پر رحمت
الٰہی کی مرہم درکار ہے۔
1۔
خود احتسابی: ہر
رات خود سے سوال کریں: کیا میں نے کسی دل کو آج ٹھیس دی؟ یہی سوال آپ کو مروّت کی
دہلیز تک لے آئے گا۔
2۔
حسن خلق کو اپنانا: نبی ﷺ کا سب سے بڑا وصف حسن خلق تھا۔ فرمایا گیا: مجھے
مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔ (نوادر الاصول،1/1107،
حدیث:1425)
3۔
دوسروں کی جگہ خود کو رکھنا: جب ہم دوسرے کے جوتے میں چل کر دیکھتے
ہیں تو زمین کی سختی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی احساس انسان کو نرم کرتا ہے۔