اس عالم رنگ و بو میں انسانوں کی تخلیق کے بعد انہیں تاریکیوں سے نور ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے اللہ تعالی نے نبوت کا سلسلہ جاری کیا ختم نبوت کے بعد اسلامی قانون کو جاری رکھتے ہوئے بندوں سے ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی سے نجات دلا کر جائز حقوق پہنچاۓ اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر باقی رکھنے کے لیے حاکم عطا کیا اس وجہ سے انسانوں میں سے جسے عہدہ و خلافت ملی اسے عہدہ سنبھالنے کے بعد سارے معاملات میں عدل و انصاف سے فریضہ حکومت انجام دینے کے سلسلہ میں تاکیدی حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا

وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ- ترجمہ کنزالعرفان جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ پ 4 آیت نمبر 58 نساءاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر آدمی اپنے ماتحت کے ساتھ انصاف سے کام لے چونکہ وہ اس کا ذمہ دار ہے۔جیسا کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الإمام راع ومسئول عن رعيته۔۔۔(«‏‏‏‏ صحيح البخاري، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَابُ الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى وَالْمُدْنِ 11 (893)،صحیح مسلم/الإمارة 5 (1829)، سنن الترمذی/الجھاد 27 (1507)، سلاطین و حاکم پر حکومت اور نظام ملک کے ساتھ ساتھ رعایا و عوام کے حقوق کو ادا کرنا ہے

آئیے رعایہ کے چند حقوق پڑھتے ہیں:

لوگوں کی پردہ پوشی کرنا حاکم کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی غلطیوں کے بارے میں غیر ضروری تجسس کی کوشش نہ کرے اور معمولی لغزشوں پر لوگوں کو تنگ نہ کرے اور جہاں تک ممکن ہو عفوو درگزر سے کام لے اور لوگوں کے عیبوں کو بلا حاجت شرعی فاش نہ کرے۔ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا: ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا (سنن ترمذي، كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي السَّتْرِ عَلَى الْمُسْلِمِ، حدیث نمبر 1426)

احکام کے نفاذ میں سختی : حاکم کو چاہیے کہ لوگوں کو مشتبہہ کاموں میں پڑھنے اور معصیت کا ارتکاب کرنے میں دلیر نہ ہونے دے اور مشکوک مقامات اور محافل میں شرکت سے اجتناب کرتے ہوئے اچھے کاموں کی ترویج و اشاعت میں کردار ادا کرے جیسا کہ

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سن سنة حسنة فعمل بها، كان له اجرها ومثل اجر من عمل بها لا ينقص من اجورهم شيئا، ومن سن سنة سيئة فعمل بها، كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده لا ينقص من اوزارهم شيئا".رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہو گا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی“

(سنن ابن ماجه، أبواب کتاب السنة، بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَيِّئَةً، حدیث نمبر 203)

غرباء کی ہم نشینی : حاکم کو چاہیے کہ وہ صاحب دولت اور طاقتور لوگوں کے ساتھ زیادہ میل جول رکھنے کی بجائے غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ وقت بسر کرے ۔ اپنا زیادہ تر وقت فقراء اور اولیا ء اللہ کے پاس گزارے اور اپنے قلب کی اصلاح کے لیے خود کو صلحاء کے ذریعے جلاء بخشتا رہے ۔

غریب پروری: رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ حاکم وقت فاقہ زدہ عوام کی حالت زار سے بے خبر نہ رہے اور پوری کوشش کرے کہ کوئی شخص بھوک کا شکار نہ ہو ، حاکم کو چاہیے کہ وہ بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کا خاص خیال رکھے اور اس بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالی کے حضور پیش ہونے سے ڈرے ۔

رعایا پر رحمت وشفقت:بادشاہ عوام کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا ہے۔اس لیے انہیں رعایا کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔جیسا کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا ”من لا یرحم الناس لا یرحمہ اللہ،جو شخص انسانوں پر رحم نہیں کرتا ہے تو اللہ ایسے شخص پر رحم نہیں فرمائے گا ”(صحیح البخاری/کتاب التوحید 2 حدیث نمبر 7376) صحیح مسلم/الفضائل 15 (2319) اسی طرح حدیثِ نبوی ہے الراحمون یرحمہم الرحمٰن إرحموا اہل الأرض یرحمکم من فی السماء،،رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے تو تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان کا مالک تم پر رحم فرمائے گا

(«‏‏‏‏سنن الترمذی، كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي رَحْمَةِ النَّاسِ (حدیث نمبر 1924)

حاکم کا ظلم نہ کرنا حاکم کا رعایا کے اوپر بلا وجہ ظلم کرنا حرام ہے کیوں کہ ان پر ظلم کرنا یہ عذاب عظیم کا داعی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا وَ مَنْ یَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِیْرًا ترجمہ کنزالعرفان اور تم میں جو ظالم ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔(پ،18،س،فرقان آیت نمبر 19)

رعایا کی حفاظت:حکام پر رعایا کی حفاظت اہم فریضہ ہے۔سرحد کی حفاظت کی خاطر پولیس محکمہ قائم کرے اور ہمیشہ وہاں افواج کو تیار رکھا جائے،نیز یہ بھی حق ہے کہ بادشاہ دین اسلام کی سرپرستی کرتے ہوئے اس کی حفاظت کرے اور اشاعت اسلام کے لیے علماء و فضلاء مقرر کرکے شرک و بدعات کے راستوں کو مسدود کردے۔شریعت کے مطابق ان کی انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اللہ کے اموال کو ان کے صحیح مصارف میں خرچ کرے-

آخر میں اللہ کریم کی بارگاہ عالی میں دعا ہے کہ رب کائنات ہمیں رعایہ کے ان حقوق کا خیال رکھنے حکمران نصیب فرمائے آمین