ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام  اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیبدیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اوراسی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ قوم تباہی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

(1)رعایا کی مدد کرنا ۔امیر المؤمنین حضرت سید نا علی المرتضی کرم الله تعالى وَجْهَهُ الكَرِيم ارشاد فرماتے ہیں کہ سر کار مکہ مکرمہ ، سردار من منور صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : ” میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا “المعجم الصغير للطبراني ، الحديث : 71 ، الجزء الاول، ص 31

(2)مدد نہ کرنا۔حضرت سید نا ابو شیخ اور حضرت سید نا ابن حبان رحمه الله تعلی علیهما نقل کرتے ہیں: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ایک بندے کو قبر میں 100 کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا، وہ برابر عرض کرتا رہا یہاں تک کہ ایک کوڑا رہ گیا پس اس ایک کوڑے سے ہی قبر میں آگ بھر گئی۔ جب وہ آگ ٹھنڈی ہوئی اور اُسے افاقہ ہوا تو اس نے پوچھا: ” مجھے کوڑا کیوں مار رہے ہو؟“فرشتوں نے جواب دیا : ” تو نے ایک نماز بغیر وضو کے پڑھی تھی اور ایک مظلوم کے پاس سے گزرا تھا لیکن (قدرت رکھنے کے باوجود ) تو نے اس کی مدد نہ کی تھی ۔التمهيد لابن عبد البر ، يحيى بن سعيد الانصاری، تحت الحديث: 738/32، ج 10، ص 166 -

(3)سزا نہ دینا۔ سُنَنِ ابی داؤد کی روایت میں اس طرح ہے : " غلاموں میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق ہو اسے وہی کھلا ؤ جو خود کھاتے : ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق نہ ہو اسے بھی بیچ دو لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مخلوق کو عذاب نہ دو۔“سنن ابی داود کتاب الادب، باب فى حق المملوك ، الحديث : 5161 ، ص 1600-

(4)معاف کرنا ۔حضور نبی مکرم،نور مجسم ، صلی اللہ علیہ وآلہ نے غلاموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: "اگر وہ اچھاکام کریں تو قبول کرلو اور اگر برائی کریں تو معاف کر دیا کرو لیکن اگر وہ تم پر غلبہ چاہیں تو انہیں بچ دو الترغيب والترهيب ، كتاب القضاء ، باب الترغيب فى الشفقة .... الخ ، الحديث : 3490٫ ،ج٫3ص ،167

(5)جنت کی خوشبو نہ پائے گا ۔حضرت معقل بن یسار  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، 4 / 456، الحدیث: 7150)

(6)نرمی کرنا ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ،میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبۃ الجائر۔۔۔ الخ، ص1061، الحدیث: 19(8127))