ہر شخص نگہبان ہے، ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جس کے ماتحت جتنے زیادہ ہونگے وہ اتنا ہی زیادہ جوابدہ ہو گا۔ پھر جس خوش نصیب نے  اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف، شفقت و محبت، خیر خواہی، امانتداری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہو گا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائے گا، اسے بروزِ قیامت عرشِ الہی کا سایہ نصیب ہو گا اور اُس کا عدل و انصاف اُس کے لئے باعث نجات ہو گا۔ اس کے برعکس جس حاکم نے اپنی رعایا کے ساتھ خیانت، ظلم و ستم، دھوکا دہی، حق تلفی کا مظاہرہ کیا ہو گا، اُن کی حاجات و ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہ دی ہو گی تو وہ دنیا و آخرت میں نقصان اُٹھائے گا، محشر کی گرمی میں اس کے لئے کوئی سایہ نہ ہو گا، رحمت خداوندی سے محروم رہے گا اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی کی بھر پور کوشش کرے، جتنا ہو سکے نرمی سے پیش آئے، شفقت و محبت بھرا انداز اپنا ئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکے گا۔آئیے رعایا کے کچھ حقوق سن لیتے ہیں:

1۔انصاف کرنا: رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے۔ (مسلم، ص 783، حدیث: 4721 ملتقطا)

2۔ رعایا کی خبر گیری: ایک مرتبہ امیرُ المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا: وہ اتنے عرصہ سے میری خبر گیری کر رہا ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی کرتا ہے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: اے طلحہ! تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیرُ المؤمنین عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔ (اللہ والوں کی باتیں، 1/116، 117)

3۔ دھوکہ نہ دینا: حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ خیر خواہی کے ساتھ اُن کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ (بخاری، 4 /456، حدیث: 7150)مسلم شریف کی روایت میں یہ ہے کہ جو مسلمانوں کے اُمور پر والی بنایا جائے، پھر اُن کے لئے کوشش نہ کرے اور اُن سےخیر خواہی نہ کرے تو وہ اُن کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم، ص 78، حدیث: 366)

حاکموں کے لیے دعائے مصطفی: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے اس گھر میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور اور ان سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما۔ (مسلم، ص 784، حدیث: 4722)

4۔ رعایا کی مدد کرنا: امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی کرم الله وجہہ الكريم ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا۔ (معجم صغير، 1/31، حديث: 71)

5۔ نرمی کرنا: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس ﷺ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ ! ،میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 8127)

6۔ رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جب حاکم فیصلہ کرے تو کوشش کرے کہ درست فیصلہ کرے تو اس کو دو ثواب ہیں اور جب فیصلہ کرے تو کوشش کرے اور غلطی کرے تو اس کو ایک ثواب ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5 /422)

7۔ عیب نہ ڈھونڈنا: حاکم کو چاہیے کہ بےوجہ رعایا کی عیب جوئی یا ان کی ٹو میں نہ پڑے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ حاکم جب لوگوں میں تہمت و شک ڈھونڈنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ دے گا۔ (مراۃ المناجیح، 5/408)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اگر ہم اپنے اوپر غور کریں تو تقریبا ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح حاکم حکمران ہے کوئی آفیسر کوئی استاد، کوئی ناظم اورکوئی والد ہونے کی صورت میں حاکم ہے اگر معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک و پیار و محبت و نرمی سے پیش آئیں اور ان کے تمام حقوق ادا کریں اور اسی طرح جو احادیث وغیرہ میں بیان ہوئے ان پر کار بند رہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین