کسی بھی ملک یا
سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو دعایا
کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال
اور ان کے درمیان درست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت سیدنا ہشام رحمة الله علیه
بیان کرتے ہیں کہ حضرت سيدنا كعب الاحبار
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہوں تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں
اور حکمران برے ہوں تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں لہذا حکمران کو رعایا سے اچھا سلوک
کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی ہو ۔ آئیے اب دعایا کے حقوق سنیئے
(1) دعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا : حضرت
ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لیے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ
خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو (مراۃ المناجیح جلد5
ص416)
(2) دعایا کی ضرورت وحاجت کو پورا کرنا :حضرت عمرو بن مرۃ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت
معاویہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ
جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت
ومحتاجی کے سامنے حباب کردے تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت وحتاجی کے سامنے آڑ فرمادے
گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر فرما دیا (مراة المناجیح جلد5 ص 419)
(3)
رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا۔ حضرت
عبد الله بن عمر اور ابو ھریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ جب حاکم فیصلہ کرے تو کوشش کرے کہ درست فیصلہ کرے تو اس کو دو
ثواب ہیں اور جب فیصلہ کرے تو کوشش کرے اور غلطی کرے تو اس کو ایک ثواب ہے (مراة
المناجیح جلد 5 ص 422)
(4) رعایا پر ظلم نہ کرنا : حضرت عبد الله بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالٰی ہوتا ہے جب تک وہ ظلم
نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔
(مراة المناجیح جلد5 ص 429)
(5) رعایا کی خبر گیری
: حضرت سید یحییٰ بن عبداللہ اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ امیر
المومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور
دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت سیدنا طلحہٰ رضی الله عنه یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ
صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا تو
وہاں ایک نابینا
اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ ہے جو
تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا وہ اتنے عرصہ سے میری خبر گیری کر رہا ہے ۔
حضرت سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے ۔ آپ
کو مخاطب کر کے کہنے لگے اے طلحہ تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیر المومنین عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا ۔( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص
116)