رعایا
کے حقوق از بنت محمد عدنان عطاری، جامعۃ
المدینہ دارالحبیبیہ دھوراجی کراچی
رعایا کے حقوق جاننے سے پہلے سب سے پہلے یہ جاننا
ضروری ہے کہ رعایا ہوتے کون لوگ ہیں رعایا کے معنی مُطیع، حاکم کے زیرِ فرمان رہنے
والے لوگ۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ
الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ
اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان
والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر
ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی
نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت سے معلوم ہواکہ
جہاں مسلمان پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے
وہیں اہلِ خانہ کی اسلامی تعلیم و تربیت
کرنابھی اس پر لازم ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں ان سب کو
اسلامی احکامات کی تعلیم دے یا دلوائے یونہی اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے
محفوظ رہیں۔
پیاری اسلامی بہنو! اس میں ماتحت افراد کی تربیت کے متعلق فرمایا گیا اور
چونکہ رعایا حاکم کے ماتحت ہوتی ہے لہذا حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کے
لیے اسلامی تعلیمات کا انتظام کرے۔
رعایا کا پہلا حق: حاکم
کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کی حفاظت دین کے لیے انتظامات کرے انہیں درست
اسلامی مستند تعلیم دینے کے لیے سنی مدارس قائم کرے، انکی تعلیم دین کا اہتمام
کرنا۔
رعایا کا دوسرا حق: حاکم
کے لیے ضروری ہے کہ وہ رعایا پر شرعی قوانین کا نفاذ کرے کیونکہ اگر شرعی قوانین
کا نفاذ نہیں ہوگا تو رعایا کثیر گناہوں میں مبتلا ہو جائے گی۔
رعایا کا تیسرا حق: رعایا
کے درمیان عدل اور انصاف کا قیام کرے ایسا نہ ہو کہ امیروں کے ساتھ تو اچھا شروع
کیا جائے اور غریبوں کے ساتھ برا۔ بلکہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔
رعایا کا چوتھا حق: حاکم
شرعی سزاؤں کا نفاذ کرے اور مجرموں کی
سرکوبی کی کوشش کرے کیونکہ جہاں شرعی سزاؤں کا نفاذ نہیں ہوتا وہاں جرائم بے قابو
ہو جاتے ہیں۔
رعایا کا پانچواں حق: حاکم
رعایا کی مال، جان، عزت کی حفاظت اور امن و امان کے قیام کو یقینی بنائے اور اس کے
لیے اقدامات کرے۔
رعایا کا چھٹا حق: حاکم
رعایا کی حفاظت کے لیے اسلحہ اور فوج کا انتظام رکھے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا
تو خدانخواستہ اگر دشمنوں نے حملہ کر دیا تو رعایا کی جان کو خطرہ ہے اور
دارالاسلام کا دفاع کرے یہ رعایا کے ایمان کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہے۔
رعایا کا ساتواں حق: حاکم
کفار محاربین اور سازشین کے خلاف قتال کرے۔
رعایا کا آٹھواں حق: حاکم
سرکاری خزانے کی حفاظت کرے اور اسلام کے
مالی نظام کا قیام عمل میں لائے۔ کیونکہ اگر وہ خزانے کی حفاظت نہیں کرے گا تو
ضرورت پڑنے پر دوسرے ممالک سے قرضہ لینا پڑے گا اور جب دوسرے ممالک سے قرضہ لیا
جاتا ہے تو مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے اور مہنگائی کی صورت میں چونکہ رعایا حرج میں
مبتلا ہوگی لہذا خزانے کی حفاظت کا یہ اقدام کرنا ضروری ہوگا۔
رعایا کا نواں حق: حاکم
کے لیے ضروری ہے کہ وہ قومی خزانے پر امانت دار ماہرین کا تقرر کرے کیونکہ اگر
امانت دار افراد نہیں رکھے گئے تو کرپشن کرنے والے سرکاری خزانے کو جو کہ رعایا کا
حق ہے اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کریں گے۔
رعایا کا دسواں حق: حاکم
کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی حالت سے براہ راست باخبر رہے کیونکہ اسکی ذمہ داری
بنتی ہے کہ وہ عوام کی ضروریات کو پورا کرے اور اس سے بروز قیامت اس متعلق سوال
بھی ہوگا۔
قارئین اس حوالے سے عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا خوف خدا پر مبنی قول ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں
کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے: اگر میری رعیت میں کتا بھی
بھوکا مرگیا تو کل بروز قیامت مجھ سے حساب لیا جائے گا۔
رعایا کا گیارھواں حق: حاکم
تنخواہوں کا منصفانہ نظام قائم کرے اور تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کرے کیونکہ اگر
بروقت تنخواہ داروں کو ان کا حق نہ دیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ وہ رزق حلال چھوڑ کر
چوری ڈکیتی والے کاموں میں پڑ جائے کیونکہ پیسہ بہت ضروری ہو گیا ہے مہنگائی کا
دور ہے اب اگر اس کو بروقت تنخواہ نہ دی جائے تو وہ اپنا پیٹ پالنے کے لیے معاذ
اللہ حرام کی طرف بھی جا سکتا ہے۔
رعایا کے بہت سے حقوق ہیں لہذا بالخصوص حاکم کو
چاہیے کہ وہ رعایا کے حقوق کو ادا کرے اور بالعموم تمام افراد ہی کے لیے لازم ہے
کہ وہ اپنے اپنے اوپر لازم حقوق کی ادائیگی کریں یاد رکھیے حقوق العباد کا معاملہ نہایت
سخت ہے لہذا اس میں ہرگز سستی نہیں کرنی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کی لمحہ بھر
کی سستی قیامت کے دن جہنم میں جانے کا ذریعہ بن جائے۔