اللہ   پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

(1) بدترین ہے وہ حاکم جو لوگوں پر ظلم کرے، ان کی ضروریات کی پر واہ نہ کرے۔

(2) انتہائی کمینہ اور ظالم ہے وہ شخص جو دوسروں کی اشیاء کو چھیننے کی کوشش میں لگار ہے۔

(3) حسب منصب ہر سطح پر نیکی کی دعوت دینی چاہئے تاکہ لوگوں میں دینی احکام پر عمل پیرا ہونے کاشعور بیدار ہو۔

(4) رعایا پر بے جا ٹیکس لگانا، بلاوجہ چیزوں کی قیمت بڑھانا اور خواہ مخواہ سخت احکام لاگو کر کے عوام کو پریشان کرنا ظلم و جبر کی علامت ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایاحضرت ابو مریم از دی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ میں نے رسول کریم رؤف رحیم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جسے اللہ مسلمانوں کے کسی معاملہ کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجت وضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھرے تو بروز قیامت اللہ اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی و فقر سے کچھ سروکار نہ ہو گا۔ (یہ فرمان عالی سن کر) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجات کی خبر گیری کے لئے ایک شخص مقرر فرمادیا۔ (مراٰة المناجیح، 5/373)

اس حدیث پاک میں ان حکمرانوں و عہدے داروں کے لئے سخت وعید ہے جو اپنے عیش میں مگن ہوں اور رعایا کی حاجات و ضروریات کی پروانہ کریں، لوگ فریاد کریں، مسائل کا حل چاہیں لیکن وہ ان کے اسکے جائز مقاصد پورے نہ کریں تو بروز قیامت ایسے حکمرانوں کی پکڑ ہو گی، ان کی ضروریات و حاجات سے اللہ کو کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس لئے جسے دنیا میں اللہ پاک نے کسی قوم کی کوئی ذمہ داری دی اسے چاہیے کہ ہے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے لوگوں کی حاجات و ضروریات کا خیال رکھے تا کہ بروز قیامت اللہ اس کی حاجات کو پورا فرمائے۔

مراۃ المناجیح میں حدیث مذکور کی جو شرح بیان کی گئی ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ جو حاکم مظلوموں، حاجت مندوں کو اپنے تک نہ پہنچنے دے، اپنے دروازے پر سخت پہرہ سالوں بٹھادے، ان کی ضروریات کی پروا نہ کرے، ان سے غافل رہے، ان کی حاجت روائی کا کوئی انتظام نہ کرے نام بس اپنی حکومت سنبھالنے اور اپنے عیش و آرام میں مشغول رہے تو اُس حاکم سے اللہ تعالیٰ اپنے ان مجبور بندوں کا بدلہ اس طرح لے گا کہ نہ تو اس ظالم حاکم کی حاجات و ضروریات پوری فرمائے گا نہ ان کی دعائیں قبول کرے گا اس سزا کا ظہور کچھ دنیا میں بھی ہوگا اور پورا پورا ظہور آخرت میں ہو گا خیال رہے کہ جیسے عادل بادشاہ بروز قیامت قرب الہی میں نور کے منبروں پر ہوں گے ایسے ہی غافل اور ظالم بادشاہ ذلت کےگڑھے میں ہوں گے۔ حضرت امیر معاویہ نے یہ فرمان عالی سن کر ایک محکمہ بنا دیا جس کے ماتحت ہر بستی میں ایک افسر رکھا گیا جو لوگوں کی معمولی ضرور ت میں خود پوری کرے اور بڑی ضرور تھیں آپ تک پہنچائے پھر ہمیشہ اس افسر سے باز پرس کی کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی تو نہیں کرتا۔ (مراة المناجیح، 5/374)