معاشرے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں:ایک حکمران دوسرے
رعایا۔ان دونوں کے حقوق وفرائض کے تعین اور ادائیگی سے ہی معاشروں کا عروج وزوال
جڑا ہوتا ہے۔کوئی بھی معاشرہ یا ملک اسی صورت میں اجتماعی ترقی کر سکتا ہے کہ جب،
وہاں رعایا اور سلطنت کے مابین تقسیم شدہ حقوق و فرائض میں مساوات پائی جاتی ہو۔
(1) رعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا:
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے
بعض کو اپنے کاموں کے لئے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو
اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو۔ (مسلم، ص739، حدیث: 4525)
(2) رعایا کی مدد کرنا: امیر
المؤمنین حضرت علی المرتضی ارشاد فرماتے ہیں کہ سر کار ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ
ارشاد فرماتا ہے: میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر
ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا۔ (معجم صغیر، 1/31، حديث: 71)
( 3) چغلی پر عمل سے اجتناب: رعایا کا دوسرا حق یہ ہے کہ حاکم لوگوں
کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی باتوں پر کان نہ دھرے خاص طور پر فاسق
اور خود غرض لوگوں کی باتوں پر یقین نہ کرے کیونکہ اس کا نتیجہ فتنہ فساد اور
افسوس اور ندامت ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ
فَتَبَیَّنُوْۤا (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ: اگر کوئی فاسق تمہارے
پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔
(4)رعایا کو دھوکا نہ دینا:
ایک روایت میں ہے: جو کوئی امیر مسلمانوں کی حکو مت کا والی بنے، ان کے ساتھ نہ
پوری کوشش کرے، نہ ان کی خیر خواہی کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
(مسلم، ص 78، حدیث: 366) اس حدیث میں ان حکمرانوں کے لئے سخت وعید آئی ہے جو اپنی
رعایا کی بہتری کے لئے پوری کوشش نہیں کرتے، نہ ان کی خیر خواہی کرتے ہیں بلکہ
انہیں دھوکا دیتے ہیں اور توبہ کئے بغیر اسی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں کہ ان
کے لئے جنت حرام ہے۔ کیونکہ اتنے بندوں کے حق وہ قیامت کے دن کہاں سے ادا کریں گے؟
اللہ تعالیٰ بھی اپنی طرف ہے بندوں کو راضی نہیں کرے گا کہ ان کے حقوق اپنے پاس سے
ادا کرے اور ان کو دھوکا دینے والے اور ظالم حکمرانوں کو جنت میں بھیج دے بلکہ
انہیں ضرور ہی ان حقوق کے بدلے جہنم میں پھینکے گا۔
(5) رعایا پر رحمت و شفقت: بادشاہ
عوام کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا ہے۔اس لیے انہیں رعایا کے ساتھ رحمت و شفقت کا
معاملہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص انسانوں پر رحم نہیں
کرتا ہے تو اللہ ایسے لوگوں پر رحم نہیں کرتا ہے۔ (بخاری، 4/531، حدیث: 7376)