ہمارا پیارا دین ہر قدم پر ہماری راہنمائی کرتا
ہےجس طرح شریعت مطہرہ نے ہمیں والدین، دوست احباب، رشتہ داروں سےحسن سلوک کرنے
اوران کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے بالکل ایسے ہی ایک حاکم کو پابند کیا ہے کہ
رعایا کے لئے اس کچھ حقوق و ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں اور جہاں پر رعایا کے زمے حاکم کے حقوق
ہوتے ہیں وہی حاکم پر بھی رعایا کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کا پورا کرنا حاکم پر
لازم ہوتا ہے۔ ہمارا دین اسلام بھی حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاو کرنے کی
حکم دیتاہے لہذا رعایا کے حقوق احادیث مبارکہ کی روشنی میں درج ذیل ہیں:
1۔ رعایا پر شفقت رحمت کرنا: بادشاہ
عوام کی دیکھ بھال کے لیے مقررکیا گیا
ہوتا ہے اس لیے انہیں رعایا کے ساتھ رحمت
و شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص انسانوں پر رحم
نہیں کرتا تو ایسے لوگوں پر اللہ بھی رحم نہیں فرماتا۔ (بخاری، 4/531، حدیث: 7376)
2۔ رعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا: حضرت
ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے کچھ کو اپنےکاموں کے لئے
بھیجتے تو فرمایا کرتے تھے کہ دو خوشخبریاں متنفرنہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی
نہ کرو۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 4525)
3۔ رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسولُ
اللہ ﷺ نے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے اوراس کا وہ فیصلہ درست ہوتو
اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر وہ اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے اور اس میں کوئی غلطی کر جائے تو بھی اس کے لئے ایک اجر ہے۔ (فیضان
فاروق اعظم، 2/337)
4۔ رعایا کی خبر گیری: ایک
مرتبہ امیرُ المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر
سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر
میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر
دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی
کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا: وہ اتنے عرصہ سے میری
خبر گیری کر رہا ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی کرتا ہے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے
کہنے لگے: اے طلحہ! تیری ماں تجھ پر روئے! کیا تو امیرُ المؤمنین عمر فاروق رضی
اللہُ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔ (اللہ والوں کی باتیں، 1/116، 117)
5۔ رعایا کی مدد کرنا: امیر
المؤمنین حضرت علی المرتضی فرماتے ہیں کہ سر کار مکہ مکرمہ، سردار مدینہ منورہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے: میری
ناراضگی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا
کسی کو مددگار نہیں پاتا۔ (معجم صغیر، 1/31، حديث: 71)
کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام حکومت رعایا اور
حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دینِ اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ
کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بھال اور ان کے
درمیان دُرست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ
حضرت ہشام رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت كعبُ الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران بُرا ہوتو لوگ
بھی بگڑ جاتے ہیں۔ (اللہ والوں کی باتیں، 5/491) لہٰذا حکمران کو رعایا سے اچھا
سلوک کرنا چاہئے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی قائم ہو۔ شاعر مشرق فرماتے ہیں: حکمرانی کا اصل مقصد
عوام کی خدمت ہے۔