پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنے بندوں کو مال عطا کرتا ہے ، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ، پھر انھیں مال خرچ کرنے کا حکم دیتاہے ، انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دلاتا ہے اور بخل اور کنجوسی سے منع کرتاہے۔آئیے چند ایک قرآنی مثالیں انفاق فی سبیل اللہ سے متعلق ملاحظہ کرتے ہیں۔

(1) الله کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال : مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)

تفسیر : راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے۔( تفسیرصراط الجنان ،پارہ : 3 ، سورۃ البقرة ، آیت نمبر : 261 )

(2) اپنے صدقے برباد نہ کرو

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶۴)

ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کر دو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی ہے تواس پر زوردار بارش پڑی جس نے اسے صاف پتھر کر چھوڑا، ایسے لوگ اپنے کمائے ہوئے اعمال سے کسی چیز پر قدرت نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر: ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! جس پرخرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے کا ثواب برباد نہ کردو کیونکہ جس طرح منافق آدمی لوگوں کو دکھانے کیلئے اور اپنی واہ واہ کروانے کیلئے مال خرچ کرتا ہے لیکن اس کا ثواب برباد ہوجاتا ہے اسی طرح فقیر پر احسان جتلانے والے اور اسے تکلیف دینے والے کا ثواب بھی ضائع ہوجاتا ہے۔

اس کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی پڑی ہوئی ہو، اگراس پر زوردار بارش ہوجائے تو پتھر بالکل صاف ہوجاتا ہے اور اس پر مٹی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روزِ قیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے کیونکہ وہ رضائے الٰہی کے لیے نہ تھے یا یوں کہہ لیں کہ منافق کا دل گویا پتھر کی چٹان ہے، اس کی عبادات خصوصاً صدقات اور ریا کی خیراتیں گویا وہ گردو غبار ہیں جو چٹان پر پڑ گئیں ، جن میں بیج کی کاشت نہیں ہو سکتی، رب تعالیٰ کا ان سب کو رد فرما دینا گویا وہ پانی ہے جو سب مٹی بہا کر لے گیا اور پتھر کو ویسا ہی کر گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدقہ ظاہر کرنے سے فقیر کی بدنامی ہوتی ہو تو صدقہ چھپا کردینا چاہیے کہ کسی کو خبر نہ ہو۔لہٰذا اگر کسی سفید پوش یا معزز آدمی یا عالم یا شیخ کو کچھ دیا جائے تو چھپا کر دینا چاہیے۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو علم دین سکھایا ہوتو اس کی جزا کی بھی بندے سے امید نہ رکھے اور نہ اسے طعنے دے کیونکہ یہ بھی علمی صدقہ ہے ۔ (تفسیرصراط الجنان ،پارہ : 3 , سورۃ البقرة، آیت نمبر:264)

(3) جو لوگ الله کی رضا کے لیے مال خرچ کرتے ہیں : وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)

تفسیر : اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حال میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے۔( تفسیرصراط الجنان ،پارہ : 3 , سورۃ البقرة، آیت نمبر : 265)

الله کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل پر مشتمل ایک حدیث مبارکہ پیش کرتا ہوں تاکہ خوش دلی سے صدقہ دینے کی مزید ترغیب ملے اور صدقہ دینے میں آسانی ہو۔

(1)حضرت رافع بن خدیج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: صدقہ برائی کے ستر دروازوں کو بند کردیتاہے۔( مجمع الزوائد، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، 3 / 283، الحدیث: 4604)

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ الله پاک ہمیں اپنی راہ میں خوش دلی اور اخلاص کے ساتھ مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین