راہ ِ خدا میں اِخلاص کے ساتھ خرچ کرنا بہت محبوب عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِسے خدا کو قرض دینے سے تعبیر فرمایا جیساکہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌۚترجمۂ کنزالایمان: کون ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض تو وہ اس کے لیے دونے کرے اور اس کو عزت کا ثواب ہے۔(الحدید: 11)

یہ اللہ تعالیٰ کا کمال درجے کا لطف و کرم ہے، کیونکہ مخلوق کی جان و مال سب کا خالق و مالک خدا ہے اور بندہ اُس کی عطا سے صرف مجازی مالک ہے، مگر اس کے باوجود فرمایا کہ صدقہ دینے والا،گویا خدا کو قرض دینے والا ہے۔یعنی جیسے قرض دینے والے کو اطمینان ہوتا ہے کہ اُسے اُس کا مال واپس مل جائے گا ایسا ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے والا مطمئن رہے کہ اسے خرچ کرنے کا بدلہ یقینا ًملے گا اوروہ بھی معمولی نہیں، بلکہ کئی گنا بڑھا کر، جو سات سو گنا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے لاکھوں گنا زائد بھی، راہ خدا میں خرچ کرنے کے اور بھی بہت سے فوائد و فضائل ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالی نے قرآن پاک میں امثلہ کے ذریعے بیان فرمایا ہے، ان میں چند یہ ہیں:

(1) دانہ کی مثال: مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ۔ (البقرۃ:261)

وضاحت:اس آیت میں خرچ کرنے کا مُطْلَقاً فرمایا گیا ہے خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل، نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا شامل ہے خواہ وہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی غریب کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کسی طالب علم کو کتاب خرید کر دینا ہو یا کوئی شِفا خانہ بنانا یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے فُقراء و مساکین کو تیجے، چالیسویں وغیرہ پر کھلادیا جائے۔ (تفسیر صراط الجنان)

(2) باغ کی مثال: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵)ترجمۂ کنزالایمان: اور ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی رضا چاہنے میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے دل جمانے کو اس باغ کی سی ہے جو بھوڑ (ریتلی زمین)پر ہو اس پر زور کا پانی پڑا تو دونے میوے لایا پھر اگر زور کا مینہ اُسے نہ پہنچے تو اوس کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (البقرۃ: 265)

وضاحت :اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حال میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے (تفسیر صراط الجنان)

(3) ہوا کی مثال: مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْهَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَاَهْلَكَتْهُؕ-وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۱۷) ترجمۂ کنزالایمان: کہاوت اُس کی جو اس دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا(سخت ٹھنڈک) ہو وہ ایک ایسی قوم کی کھیتی پر پڑی جو اپنا ہی بُرا کرتے تھے تو اُسے بالکل مارگئی اور اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہ خود اپنی جان پرظلم کرتے ہیں۔ (اٰل عمرٰن: 117)

اللہ پاک ہمیں اپنی راہ میں خوب خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین