قرآن کریم میں سمجھانے کے مختلف اسلوب بیان کیے گئے ہیں تاکہ ہر ایک کو آسانی سے سمجھ آ جائے اور وہ کامیابی کی راہ کی جانب بڑھ سکے ۔ انہی بے شمار طریقوں میں سے ایک طریقہ کار بات کو مثالوں کے ساتھ سمجھانے کا ہے ۔ قرآن مجید میں بارہا مختلف قسم کی مثالیں بیان کی گئ ہیں تاکہ لوگوں کو آسانی ہو وہ ان مثالوں سے اپنے قلوب کو وسعت والا بنائیں اور فوائد حاصل کریں۔ دیگر مثالوں میں سے کچھ مثالیں راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کی بھی بیان کی گئی ہے آئیے قرآن کریم میں انفاق فی سبیل اللہ کی جو مثالیں بیان کی گئی ہیں ان کے متعلق جانتے ہیں :

(1) اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنا اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)

راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں۔

(2) اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنا اونچے باغ کی طرح ، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)

اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حا ل میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں بھی اللہ تعالی کی راہ میں مال خرچ کرنا چاہیے، اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اس کا مفہوم یہ ہے کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کون ہے جو اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرے ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں اس سے بےشمار فوائد حاصل ہوں گے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم