محمد عرفان عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ
ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)
دعوت اسلامی
کے مکتبۃ المدینہ کی کتاب "اصلاح اعمال" جلد اول صفحہ نمبر 128 تا 129
پر ہے: دنیا کا لغوی معنی ہے: "قریب" اور دنیا کو دنیا اسی لیے کہتے ہیں
کہ یہ آخرت کی نسبت انسان کے زیادہ قریب ہے یااس وجہ سے کہ یہ اپنی خواہشات ولذات
کے سبب دل کے زیادہ قریب ہے۔
علامہ بدرالدین
عینی بخاری شریف کی شرح "عمدۃالقاری" جلد 1 صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں :
دار آخرت سے پہلے تمام مخلوق دنیا ہے۔
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی صرف آسائشوں سے بھری ہوئی ہے
اور دنیا کی محبت آخرت کی بربادی کا سبب ہے اللّٰہ پاک نے جہاں قرآن مجید میں
بےشمار چیزوں کی مذمّت بیان فرمائی ہے وہیں دنیا کی زندگی کی مذمّت بیان فرما کر مسلمانوں
کو خبردار کیا ہے کہ وہ دنیا کی اس دھوکہ اور فریب والی زندگی کے قریب بھی نہ جائیں
جو ان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔اب ہم آپ کے سامنے قرآن مجید کی روشنی سے دنیا
کی مذمّت بیان کرتے ہیں۔ غور کرو اور عبرت حاصل کرو۔
(1)
سوکھی ہوئی گھاس: وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ
الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى
كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنز العرفان:اور ان کے سامنے بیان کرو کہ دنیا کی زندگی کی
مثال ایسی ہے جیسے ایک پانی ہو جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا
سبزہ گھنا ہوکر نکلا پھروہ سوکھی گھاس بن گیا جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا
ہے۔(پ15 ،الکھف، آیت نمبر 45)
(2)
آسمان سے اترا ہوا پانی: اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا
كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا
یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا
وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ
اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ
بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴)
ترجمہ کنز العرفان:دنیا کی زندگی کی مثال تو اس
پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی
ہو کر نکلیں جن سے انسان اور جانور
کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی خوبصورتی پکڑلی اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس
کے مالک سمجھے کہ (اب) وہ اس فصل پر قادر ہیں تو رات یا دن کے وقت ہمارا حکم آیا
تو ہم نے اسے ایسی کٹی ہوئی کھیتی کردیا گویا وہ کل وہاں پر موجود ہی نہ تھی۔ ہم
غور کرنے والوں کیلئے اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں۔(پ 11 ، یونس ،آیت
نمبر :24)
(3)
آرائش والی زندگی: اِعْلَمُوْۤا
اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ
وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ
الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ
حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰) ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ
دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور
اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش
جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا
لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا
(بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی
رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20)
مذکورہ تمام آیات
سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی کھیل کود٬آسائشوں٬دھوکے بازیوں اور عارضی و فانی
ہے۔ اس کی محبت آخرت کی بربادی کا سبب ہے۔ اس کے فریب میں آنے والا گناہوں کے دلدل
میں پھنس جاتا ہے۔
اللّٰہ پاک
اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے سے ہمیں دنیا کے فریب سے بچنے اور اپنی
آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم