دنیا کا لغوی معنی ہے قریب اور دنیا کو دنیا اس لیے کہتے ہیں کہ یہ آخرت کی نسبت انسان سے زیادہ قریب ہے یا اس وجہ سے کہ یہ اپنی خواہشات و لذات کے سبب دل سے زیادہ قریب ہے ۔( اصلاح اعمال جلد 1، ص 128تا129)

دنیا ایک عارضی ، فانی اور آزمائش کا مقام ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں آخرت میں ہونے والے امتحان کی تیاری کے لیے پیدا فرمایا ہے ۔ دنیا کی خواہشات اور محنت و مشقت سے عزت و دولت کمانا جلد ختم ہونے والی چیزیں ہیں دنیا کی آخرت کے معاملے میں کوئی اہمیت نہیں کیونکہ دنیا کی زندگی مختصر اور آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہیں اس لئے اصل زندگی آخرت کی ہے قرآن مجید فرقان حمید میں بھی آخرت کی زندگی کو دنیاوی زندگی سے بہتر قرار دیا گیا ہے تاکہ مسلمان دنیا کی طرف راغب نہ ہو ۔

آئیے اب ہم دنیا کی حقیقت کے متعلق چند آیات مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں :

(1) سوکھی ہوئی گھاس : وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ ‏السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ ‏الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمۂ ‏کنزالایمان:اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو ‏جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتاراتو اس کے سبب زمین کا ‏سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں اور ‏اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔ ‏ ‏(پ15، الکہف: 45) ‏

(2) آسمان سے اترا ہوا پانی : اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ ‏فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى ‏اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ ‏قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا ‏كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ ‏یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴)‏ ترجمۂ کنزالایمان: دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے ‏جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے ‏اگنے والی چیزیں گھنی (زیادہ )ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور ‏چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا ‏اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس ‏میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے ‏کردیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مُفَصَّل ‏بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔ ‏(پ11، یونس:24)‏

(3) دھوکے کا سامان ہے : اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ ‏بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ ‏الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ ‏فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا ‏الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰)‏ ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل ‏کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد ‏میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ‏ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ ‏سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا ‏‏(بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ ‏کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی ‏زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20) ‏

مذکورہ بالا تمام آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے ایسے ہی دنیا سے نفرت تمام نیکیوں کی اصل ہے ۔

ہمارے دل سے نکل جائے الفت دنیا

دے دل میں عشق محمد مرے رچا یا رب

( وسائل بخشش ، ص82)

دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم