محمد عثمان غنی سیالوی(درجہ
سابعہ جامعۃُ المدينہ فیضان امام غزالی فیصل آباد، پاکستان )
عیب جوئی سے مراد اپنے مسلمان بھائی کے عیوب کی ٹوہ میں رہنا
اور پھر اس کے عیوب کو لوگوں میں پھیلانا عیب جوئی کہلاتا ہے۔
ہم ایک انسانی معاشرے میں رہتے ہیں ۔ اور ہر انسان خطا کا
پتلا ہے۔ صرف انبیا گناہوں سے پاک ہیں اس کے علاوہ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمی رہ
ہی جاتی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے عیوب پر نظر ڈالنے کی بجائے ان کی خوبیوں کی
طرف دیکھیں۔ اگر آپ صرف لوگوں میں عیب ہی تلاش کریں گے تو آپ لوگوں میں کبھی بھی عزت
نہیں پاسکتے ۔
عام طور پر ہمارے معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی
طرح کے وہ لوگ جو صرف لوگوں کی اچھائیوں کی طرف دیکھتے ہیں اور بڑائیوں سے صرفِ
نظر کرتے ہیں۔ یہ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں۔ در اصل یہ لوگ لوگوں کی خامیوں کو اچھالتے
نہیں بلکہ ان سے اپنی اصلاح کرتے ہیں اور اپنی دنیا اور آخرت سنوارتے ہیں، یہ لوگ
اس وجہ سے بہت سی بیماروں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر غیبت ، عیب جوئی،
الزام تراشی، بہتان تراشی و غیرہ جیسی مذموم برائیوں سے محفوظ رہ جاتے ہیں۔
جبکہ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو صرف اور صرف لوگوں کی
خامیوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہیں یہ کسی کی غلطی
پر مطلع ہوں تو اسے لوگوں میں پھیلائیں۔ اور اگر انہیں کوئی غلطی نہ بھی ملے تو
اپنی طرف سے کسی پربہتان لگا کر اسے لوگوں میں ذلیل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس
قسم کے لوگ بہت سے برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر غیبت، چغلی، بہتان
تراشی، الزام تراشی وغیرہ۔ یہ لوگ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ اور لوگوں کی
عزت پر حملہ کرتے ہیں۔ ان دونوں طرح کے لوگوں کی مثال شہد کی مکھی اور عام مکھی کی
طرح ہے۔
پہلی قسم کے لوگ جو لوگوں کی اچھائیوں کو دیکھتے ہیں یہ شہد
کی مکھی کی طرح ہوتے ہیں۔ جس طرح شہد کی مکھی پھولوں کی خوشبو سونگھتی ہے اور ان
کا رس چوستی ہے پھر اس سے شہد تیار کرتی ہے جس میں بہت سی بیماریوں کے لیے شفا ہوتی
ہے اسی طرح یہ لوگ بھی اچھائیوں کی طرف دیکھ کر لوگوں میں نفرتیں نہیں پھیلاتے
بلکہ محبتوں کو اجاگر کرتے ہیں، دوسرے قسم کے لوگ جو صرف برائیوں کی طرف دیکھتے ہیں
ان کی مثال عام مکھی کی طرح جو سارا پاک وصاف بدن چھوڑ کر زخم پریا نجاست پر
بیٹھتی ہے جس کا کھانا ناپاک ، پینا نا پاک ۔ بالکل اسی طرح یہ لوگ بھی لوگوں کی
اچھائیوں کو چھوڑ کر صرف ان کی برائیوں کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر لوگوں کو بد نام
کرنے کے لیے اسے معاشرے میں پھیلا دیتے ہیں۔ اصل میں ان لوگوں کو چاہیے کہ اگر عیب
تلاش کرنے ہی ہیں تو پھر اپنے عیب تلاش کریں۔ اپنے اندر جھانکیں، اپنے اندر ہی اتنے
عیوب ملیں گے کہ لوگوں کی طرف دیکھنے کا وقت بھی نہیں ملے گا۔
قراٰن و حدیث میں عیب جوئی کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔
اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ
پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1) یہ آیت ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی جو صحابۂ کرام
پر اعتراضات کیا کرتے تھے۔ (صراط الجنان )
احادیثِ
مبارکہ میں عیب جوئی کی مذمت :نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا
اللہ پاک اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ پاک ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے
ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہو جائے گا۔ (ترمذی، 3/ 446 ،حدیث: 2039 )
پردہ پوشی کے فضائل : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو کسی کا پوشیدہ عیب دیکھے، پھر اسے چھپالے، تو وہ اس
شخص کی طرح ہوگا کہ جس نے زندہ دفنائی گئی بچی کو قبر سے نکال کر اس کی جان بچالی۔(مسند
احمد، 6 /126،حدیث1733)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی
اللہ پاک دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔ (مسلم )