ریحان علی(درجۂ تخصص فی
الفقہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی، پاکستان)
انسان کی کئی صفات قراٰن و حدیث کے اعتبار سے
مذموم(ناپسندیدہ)ہوا کرتی ہیں اور کسی مسلمان کی عیب جوئی یعنی مسلمان کا عیب تلاش
کرنا بھی ایک مذموم صفت ہے جس کے بارے میں قراٰن و حدیث میں اس کی مذمت وارد ہوئی
نیز عیب جوئی کی عادت انسان کو بدگمانی اور غیبت و نفرت جیسے گندے گناہوں میں مبتلا
کر دیتی ہے۔ قراٰنِ مجید میں فرمایا گیا: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)
اسی طرح کئی احادیث میں کسی مسلمان کی عیب جوئی پر وعید
ارشاد فرمائی گئیں ہیں جیسا کہ کنز العمال کی روایت ہے کہ چھ چیزیں اعمال برباد کر
دیتی ہیں مخلوق کی عیب جوئی، سنگدلی، دنیا کی محبت، حیا کی کمی، لمبی امیدیں اور
ناختم ہونے والا ظلم ۔ (کنزالعمال، 44023)
مشکوٰۃ شریف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی
پاک علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے خفیہ عیوب نہ ڈھونڈو کیونکہ جو اپنے
مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب تلاش کرے گا تو اللہ اس کے عیب ظاہر کردے گا اگرچہ اس کے
گھر میں ہوں اور اسے رسوا کردے گا اگرچہ وہ اپنی منزل میں کرے ۔(مشکوٰۃ باب ماینھی
عنہ، حدیث : 4817)
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی پاک علیہ
السّلام فرماتے ہیں: بدترین سود مسلمان کی آبرو میں ناحق دست درازی کرنا ہے ۔(ایضاً
حدیث : 4818)
حضرت جبریل علیہ السّلام نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر ہماری زمین پر
عبادت ہوتی تو ہم تین خصلتوں کو اپناتے، مسلمانوں کو پانی پلانا، صاحب اولاد کی
مدد کرنا اور مسلمانوں پر گناہوں کو چھپانا ۔
اسی طرح ہمارے بزرگوں کا طریقہ بھی دیکھیں کہ ایک مرتبہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات میں گشت فرما رہے تھے کہ آپ کی نظر دروازے کے درمیان سے
ایک چراغ پر پڑی تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ چھپ کر شراب پی رہے ہیں تو آپ نے کچھ
نہ کیا اور مسجد میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انکو اس
دروازے کے پاس بلا کر لائے اور انکو بھی دکھایا اور پوچھا کہ آپکی کیا رائے ہے
ہمیں کیا کرنا چاہیے تو حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے عرض کی: اللہ کی قسم ہم اللہ
پاک کی منع کردہ جگہ پر آئے ہیں کہ ہم ان لوگوں کی اس بات پر مطلع ہوئے جس سے وہ
ہمیں چھپا رہے تھے اور اللہ کے چھپائے ہوئے کو ظاہر کرنا ہمارے لئے درست نہیں تو
حضرت عمر فاروق اعظم نے فرمایا کہ تحقیق آپ نے سچ فرمایا اور یہ دونوں صحابہ واپس
لوٹ آئے ۔
اس حدیث پاک ے بعد علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں کہ ایک بندے کی جس بات کو اللہ پاک نے چھپایا ہے تو بندے پر بھی لازم ہے کہ اس
کی اس بات کو چھپائے رکھے۔ (تفسیر روح البیان، 9/ 104 تحت الآیۃ 12 سورہ حجرات)
اور نبی پاک علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان
بھائی کی عیب پوشی کرے اللہ پاک قیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا اور جو اپنے
مسلمان بھائی کا عیب ظاہر کرے اللہ پاک اس کا عیب ظاہر فرمائے گا یہاں تک کہ اسے
اس کے گھر میں رسوا کردے گا ۔(ابن ماجہ،جلد 3، حدیث: 2546)
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے:
جو مسلمان کی تکلیف دور کرے گا اللہ پاک قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی تکلیف دور
فرمائے گا اور جو کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے تو خدائے ستار قیامت کی دن اس کی عیب
پوشی فرمائے گا۔(مسلم، حدیث: 6580)
اور نبی آخر الزماں کا فرمان خوشبودار ہے کہ جو شخص اپنے
بھائی کا عیب دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کردے تو وہ جنَّت میں داخِل کردیا جائے گا۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عیب جوئی کرنا بہت قبیح صفت ہے
جس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے اور اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔