محمد کاشف (درجہ ثانیہ جامعۃُ
المدینہ فیضان حسن جمال مصطفی لانڈھی کراچی، پاکستان)
عیب جوئی یہ ایک بری خصلت ہے جو بہت سے لوگوں میں عام طور
پر پائی جاتی ہے۔ دوسروں کے اندر عیب تلاش کرنا یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ عیب جوئی
سے مراد کسی کے اندر خامیاں تلاش کرنا ہے چاہے وہ جسمانی ہو یا نفسانی، دینی ہو یا
دنیاوی اسے زبان سے بیان کرو یا اشارے سے عیب جوئی ہی کہلاتی ہے۔ قراٰنِ مجید میں
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ
پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1)
حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ پاک اس کے عیب
پر پردہ ڈالتا ہے۔ (رواہ ابن ماجہ)
اس لیے ہمیں اپنی زبانوں کو کسی کے عیبوں کو بیان کر کے آلودہ
نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ہر انسان میں عیب ہوتا ہے حتی کہ اس میں آپ بھی شامل ہیں۔
کسی انسان میں اگر کوئی خوبی دیکھو تو اسے بیان کرو، لیکن اگر کسی شخص میں تمھیں
خامی مل جائے تو وہاں تمھاری خوبی کا امتحان ہے۔
قراٰنِ مجید میں ایک اور جگہ بھی آیا ہے کہ : ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) یعنی کسی کے عیب تلاش
نہ کرو، اس کی ٹوہ میں نہ رہو اور کسی کی جاسوسی نہ کرو۔
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو دیکھ لے اور پھر اس کی پردہ پوشی کرے تو اس کو اللہ
پاک اتنا بڑا ثواب عطا فرمائے گا جیسے کہ زندہ درگور کی ہوئی بچی کو کوئی قبر سے
نکال کر اس کی پرورش اور اس کی زندگی کا سامان کردے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں لوگ عیب جوئی جیسی گناہ کو گنا ہ ہی
نہیں سمجھتے۔ اس لیے ہم کسی کے بھی سامنے اس کی برائی بیان کر دیتے ہیں اور اگر کسی
شخص کو دوسروں میں عیب نظر نہیں آتا تو وہ خود سے کوئی عیب بنا کر لوگوں کے درمیان
بیان کر رہے ہوتے ہیں ۔اس لیے ہمیں اپنے اندر سے اس خصلت کو ختم کرنے کے لیے
دوسروں کے اندر عیبوں کو تلاش کرنے کے بجائے اپنے اندر موجود بری خصلتوں کو ختم کر
کے ایک اچھا مؤمن بن سکتے ہیں۔