ہم جس معاشرے اور زمانہ میں آباد ہیں وہ ایسا معاشرہ ہے جس میں بہت سے لوگ گناہوں میں مصروف ہیں اور کچھ لوگ تو بعض کبیرہ گناہوں کو بھی معمولی سمجھ کر رہے ہیں جیسے جھوٹ، بے حیائی وغیرہ ۔انہیں گناہوں میں ایک گناہ "عیب جوئی" بھی ہے کہ بات بات پر لوگوں کے عیوب بیان کیے جاتے ہیں اور انہیں دوسروں کے سامنے شرمندہ کیا جاتا ہے اور کچھ کسی بات کا خیال نہیں کیا جاتا حالانکہ مسلمان کی عیب جوئی کرنا " حرام " ہے اور رسوائی کا سبب ہے۔(فتاویٰ رضویہ ،14/ 271،بتغیر)آئیں دیکھتے ہیں کہ ہمارا اسلام قراٰن و حدیث کے ذریعے عیب جوئی کے بارے میں کیا رہنمائی کر رہا ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)

(1) راز کی بات بیان کرنے سے ممانعت:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دو شخصوں کا آپس میں بیٹھنا امانت ہے ان میں سے کسی کے لئے حلال نہیں کہ اپنے ساتھی کی ایسی بات(لوگوں کے سامنے )ظاہر کرے جس کا ظاہر ہونا اسے پسند نہ ہو ۔ (الزہد لابن المبارک،باب ما جاء فی الشح، ص 240،حدیث:691)

(2)عیب جوئی کرنے والے کی ذلت: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگوں کے وہ گروہ !جو اپنی زبان سے ایمان لائے اور دل سے ایمان نہ لائے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور نہ ان کے عیوب تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیوب تلاش کرتا ہے اللہ پاک اس کے عیوب ظاہر کرتا ہے اور جس کے عیوب اللہ پاک ظاہر فرماتا ہے ، اسے رُسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو۔ (ابو داؤد،کتاب الادب، باب فی الغییبہ، 4/354حدیث:4880)

(3) عیب جوئی کرنے والے کا بد ترین لوگوں میں سے ہونا:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جب دیکھے جائیں تو اللہ یاد آجائے اور اللہ کے بد ترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے ۔ (مراة المناجیح شرح مشکوة المصابیح جلد 6 حدیث: 4871)

(4) عیب جوئی کے سبب شکل اور بگڑنے کی وعید: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: طعنہ زنی، غیبت، چغل خوری اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔(الترغیب و الترھیب،کتاب الادب من النمیمہ،حدیث :4333)

(5) عیب جوئی کرنے کے سبب ردغۃ الخبال (جہنمیوں کے خون و پیپ جمع ہونے کے مقام) میں قیام:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغة الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل نہ آئے ۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیہ، باب فی من یعین علی ۔۔۔۔۔الخ،3 /427 ،حدیث: 3597)

اس تمام گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمیں بھی عیب جوئی سے بچنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات جب ہم کسی کے عیب پر مطلع ہوتے ہیں اور وہ شخص بھی یہ جانتا ہوں کہ ہم اس کے عیب کو جانتے ہیں پھر اگر ہم اس شخص کو تنہائی میں سمجھائیں تو ایسا شخص نصیحت کو قبول کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کے زیادہ قریب ہوتا ہے جبکہ اس کہ برعکس اگر ہم اس کا عیب ظاہر کردیں تو یہ شخص سب کے سامنے شرمندہ ہوجاتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ اس کی وجہ سے ہم سے دشمنی یا بغض و حسد کرے ۔ اللہ پاک ہمیں عیب جوئی سے بچنے اور مسلمانوں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)


اللہ پاک قادرِ مطلق و حاکم مطلق ذات نے ایک مسلمان کو جیسے ظاہری گناہوں سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا ویسے ہی باطنی گناہوں سے بھی اجتناب پر بڑی تاکید فرمائی۔ ظاہری گناہ جیسے نماز قضا کرنا، روزہ چھوڑنا، جھوٹ، ظلم و ستم، وعدہ خلافی وغیرھا اور باطنی گناہ جیسے ریاکاری، حبِ جاہ، حرص، بخل، بد گمانی وغیرھا۔ انہیں دنیا و آخرت برباد کرنے والے گناہوں میں سے ایک عیب جوئی بھی ہے۔ عیب جوئی سے مراد لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب تلاش کرنا ہے۔ شرعاً کسی مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب تلاش کرنا ممنوع ہے۔ جہاں اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اسکی مذمت فرمائی تو وہاں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی اس کے بارے میں وعیدات بیان فرمائیں۔ آئیے اس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان سنتے ہیں اور نیت کرتے ہیں کہ اس سے ہمیشہ بچتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ

(1) حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ پاک ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا منافق کا شِعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے۔(صراط الجنان،9/437)

(2) قیامت والے دن عیب جوئی کرنے والا کس حال میں اٹھایا جائے گا اس بارے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : غیبت کرنے والوں، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک(قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکلِ انسانی اٹھیں گے پھر محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔(باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص320)

(3) عیب جوئی کرنے والوں کو بدترین بندے بتاتے ہوئے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جب دیکھے جائیں تو اللہ یاد آجائے اور اللہ کے بدترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے، پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے۔مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: اپنے عیب ڈھونڈنا عبادت ہے دوسروں کے عیب ڈھونڈنا برا ہے۔ خیال رہے کہ اللہ پاک کے مقبول بندوں میں عیب جوئی کفر ہے، بعض بدنصیبوں کو نبیوں ،ولیوں میں عیب جوئی کی عادت ہے۔(مرآةالمناجیح ،6/334 مطبوعہ قادری پبلشرز)

(4)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نہ تو عیب جوئی کرو، نہ کسی کی خفیہ باتیں سنو اور نہ نجش کرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض کرو۔کسی کی خفیہ باتیں سننے اور عیب جوئی کا حکم بیان کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: کسی کی ہر بات پر کان لگائے رہنا، کسی کے ہر کام کی تلاش میں رہنا کہ کوئی برائی ملے تو میں اسے بدنام کردوں دونوں حرام ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ مبارک ہو کہ جسے اپنے عیبوں کی تلاش دوسروں کی عیب جوئی سے باز رکھے۔(مرآةالمناجیح،6/410مطبوعہ قادری پبلشرز)

عیب جوئی سے نہ صرف دوسرے مسلمان کی عزت پامال ہوتی ہے بلکہ اس سے عیب جوئی کرنے والے کی ذات پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے :

(1)عیب جوئی کرنے والا کسی انسان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ ہر وقت عیب ڈھونڈنے کی تگ و دوہ میں رہتا ہے۔(2) دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنے والے کو اپنی عیبوں کی اصلاح کی توفیق کم ہی ملتی ہے۔3: عیب جوئی کرنے والا ہر ایک کے عیبوں کو دوسروں سے بیان کرتا رہتا ہے یوں وہ غیبتوں سے بھی نہیں بچ پاتا ۔4: عیب جوئی کرنے والا حسد، نفاق اور چاپلوسی میں مبتلا ہوتا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنے عیب اور کمزوریوں کو تلاش کرکے انکی اصلاح کریں۔۔اللہ پاک توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


"عیب جوئی" اس کا مطلب واضح ہے یعنی کسی کے عیب تلاش کرنا۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ "خزائن العرفان" میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے حال کی جستجو میں نہ رہو کہ جسے اللہ پاک نے اپنی ستّاری سے چھپایا ۔ ( خزائن العرفان ، الحجرات ، تحت الآیۃ 12) اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپنے کسی بھی مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب کو تلاش کرنا یا اس کے لیے کوششیں کرنا شرعاً ممنوع ہے اور عیب جوئی خود ایک عیب ہے ۔ عیب جوئی کی مذمت میں پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درج ذیل ہیں:

(1)پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے وہ لوگو! جو زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کو ایذا مت دو ، اور نہ ان کے عیوب کو تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کا عیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرما دے تو اُسے رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں ہو۔ ( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، حدیث: 4882)

(2) حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں معراج کی رات ایسی قوم کے پاس سے گزرا جو اپنے چہروں اور سینوں کو تانبے کے ناخنوں سے نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا : اے جبرئیل ! علیہ السّلام ،یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے عرض کی: یہ لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے)تھے اور ان کی عزت خراب کرتے تھے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، حدیث: 4878)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ سب نے عرض کیا: الله اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا ناپسندیدہ ذکر کرنا۔ عرض کیا گیا: اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جو میں کہتا ہوں ؟ فرمایا: اگر اس میں وہ ہو جوتُو کہتا ہے تو تُونے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ نہ ہو جو تو کہتا ہے تو تونے اسے بہتان لگایا۔ ( صحیح مسلم، کتاب البروالصلةوالآداب، باب تحریم الغیبۃ، حدیث: 2589)

(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ الله کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب دیکھے جائیں تو الله یاد آجائے اور الله کے بدترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے، پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے ۔ (مسند احمد ، مسند الشامیین، حدیث: 17998)

(5) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میں ایسی عورتوں اور مَردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک رہے تھے، تو میں نے پوچھا: اے جبرئیل! علیہ السّلام ،یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے عرض کی: یہ منہ پر عیب لگانے والے اور پیٹھ پیچھے برائی کر نے والے ہیں اور ان کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1) ( شعب الایمان ، الرابع و الاربعون من شعب الایمان... الخ ، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید... الخ ، حدیث: 6326)

محترم قارئین! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ کس طرح احادیثِ مبارکہ میں عیب جوئی کی مذمّت اور اس کے متعلق وعیدیں بیان ہوئی ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم حتی الامکان اس گناہ سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں عیب جوئی سے بچنے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


مسلمانوں کی پردہ پوشی کرنا ایک عظیم وصف جبکہ ان کے عیوب کو بلا ضرورت ظاہر کرنا نہایت بری صفت ہے اور اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ بلاشبہ کسی مسلمان بھائی کے عیوب سے پردہ اٹھانا کئی خرابیوں کو جنم دیتا ہے اور افسوس اس بات پر ہے کہ آج کل لوگ دوسروں کے عیوب کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ آئیے اس بارے میں احادیث کریمہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں:

اللہ پاک کے بدترین بندے: حضرت عبدالرحمن ابن غنم اور اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بہترین بندے وہ ہیں کہ جب دیکھے جائیں تو اللہ یاد آجائے اور بدترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے، پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد6،حدیث:4871)

اللہ پاک عیب ظاہر کردے گا: حضرت ابنِ عمر سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منبر پر چڑھے پھر بلند آواز سے ندا فرمائی اور فرمایا: اے ان لوگوں کے گروہ! جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو اور ان کے دل تک ایمان نہ پہنچا مسلمانوں کو نہ تو ایذا دو اور نہ انہیں عار دلاؤ نہ ان کے خفیہ عیوب ڈھونڈو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب تلاش کرے گا تو اللہ پاک اس کے عیب ظاہر کردے گا اگرچہ اس کے گھر میں ہوں اور اسے رسوا کردے گا اگرچہ وہ اپنی منزل میں کرے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد 6 ،حدیث:5044)

سینوں سے لٹکے ہوئے لوگ: سرور کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: معراج کی رات میں ایسی عورتوں اور مردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک رہے تھے تو میں نے پوچھا اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی یہ منہ پر عیب لگانے والے ہیں۔ (شعب الایمان، 5/309 ،حدیث: 6750)

عیب پوشی پر جنت میں داخلہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کا عیب دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کردے تو وہ جنَّت میں داخِل کردیا جائے گا۔ (مسند عبد بن حمید ص:279 ،حدیث:885)

زندہ درگور بچی قبر سے نکال لی: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی کا پوشیدہ عیب دیکھے، پھر اسے چھپالے، تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا کہ جس نے زندہ دفنائی گئی بچی کو قبر سے نکال کر اس کی جان بچالی۔(مسند احمد 6 /126،حدیث1733)

محترم قارئین! دیکھا آپ نے کہ احادیث کریمہ میں دوسروں کے عیب ظاہر کرنے کی کس قدر وعیدات آئی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان فرامین مصطفیٰ کو یاد رکھیں اور عیب جوئی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اللہ پاک ہمیں تمام ظاہری اور باطنی امراض سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ اسلام کی نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت مزید بڑھ جاتی ہے اسی لئے دینِ اسلام نے ان تمام افعال سے بچنے کا حکم دیا ہے جن سے کسی انسان کی عزت و حرمت پامال ہوتی ہے ان افعال میں سے ایک فعل کسی کے عیب تلاش کرنا اور اُسے دوسروں کے سامنے بیان کرنا بھی ہے جس کا انسان کی عزت و تکریم ختم کرنے میں بڑا کردار ہے اسی لئے دینِ اسلام نے عیوب تلاش کرنے اور انہیں لوگوں کے سامنے شرعی اجازت کے بغیر بیان کرنے سے منع کیا اور اس سے باز نہ آنے والوں کو سخت وعیدیں سنائیں تاکہ ان وعیدوں سے ڈر کر لوگ اس برے فعل سے باز آئیں جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور عیب نہ ڈھونڈو۔(پ26، الحجرات:12) اس آیت میں حکم دیا گیا کہ مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے پوشیدہ حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے۔ (خزائن العرفان، ص930) آئیے! عیب جوئی کی مذمت کے متعلق چند فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:

(1)اے وہ لوگو جو زبان سے تو ایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا مسلمانوں کے عیوب تلاش نہ کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کا عیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرما دے تو اسے رسوا کر دیتا ہے اگر چہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو۔ (ابوداؤد،4/354،حدیث: 4880)

(2)اللہ پاک کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے اور اللہ کے بد ترین بندے وہ ہیں جو چغلی کھاتے پھریں، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے، پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والےہیں۔(مشکاۃ، 2/198،حدیث:4871)

(3)خود کوبد گمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے اور نہ تو عیب جوئی کرو، نہ کسی کی خفیہ باتیں اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مشکاۃ، 2/222، حدیث: 5028 ملتقطاً)

(4)چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک (قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔(الترغیب و الترہیب، 3/325، حدیث:10)

یہاں تک آپ نے عیب جوئی کی مذمت کے متعلق احادیث پڑھیں یعنی کسی کے عیب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی لیکن اگر کسی کا عیب معلوم ہو جائے تو کیا کریں؟

اس بارے میں معلمِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اپنے کسی بھائی کے عیب کو دیکھ لے اور اس کی پردہ پوشی کرے تو اللہ پاک اس پردہ پوشی کی وجہ سے اسے جنّت میں داخل فرمائے گا۔(دیکھئے:معجم کبیر، 17/285، حدیث: 2795)

عیب جوئی کا حکم: مسلمانوں کی عیب جوئی(یعنی اس کے عیب تلاش کرنا) حرام ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 14/271) دینِ اسلام نے عیبوں کو تلاش کرنے اور بغیر شرعی اجازت کے بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔

معزز قارئینِ کرام! عیب جوئی ایک باطنی بیماری ہے اور ہر بیماری کے چند اسباب ہوتے ہیں اور عیب جوئی کے بھی کچھ اسباب ہیں جن کو ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔ ان کو ذہن نشین کر لیجئے تاکہ ان اسباب سے بچاجائے اور عیب جوئی جیسی مذموم بیماری سے نجات حاصل ہو: بغض و کینہ، ذاتی دشمنی، حسد، چغل خوری کی عادت، نفاق، منفی سوچ، شہرت اور مال و دولت کی ہوس۔

اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں پڑنے سے بچنے اور اپنے عیبوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم