ہم جس معاشرے اور زمانہ میں آباد ہیں وہ ایسا معاشرہ ہے جس میں بہت سے لوگ گناہوں میں مصروف ہیں اور کچھ لوگ تو بعض کبیرہ گناہوں کو بھی معمولی سمجھ کر رہے ہیں جیسے جھوٹ، بے حیائی وغیرہ ۔انہیں گناہوں میں ایک گناہ "عیب جوئی" بھی ہے کہ بات بات پر لوگوں کے عیوب بیان کیے جاتے ہیں اور انہیں دوسروں کے سامنے شرمندہ کیا جاتا ہے اور کچھ کسی بات کا خیال نہیں کیا جاتا حالانکہ مسلمان کی عیب جوئی کرنا " حرام " ہے اور رسوائی کا سبب ہے۔(فتاویٰ رضویہ ،14/ 271،بتغیر)آئیں دیکھتے ہیں کہ ہمارا اسلام قراٰن و حدیث کے ذریعے عیب جوئی کے بارے میں کیا رہنمائی کر رہا ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)

(1) راز کی بات بیان کرنے سے ممانعت:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دو شخصوں کا آپس میں بیٹھنا امانت ہے ان میں سے کسی کے لئے حلال نہیں کہ اپنے ساتھی کی ایسی بات(لوگوں کے سامنے )ظاہر کرے جس کا ظاہر ہونا اسے پسند نہ ہو ۔ (الزہد لابن المبارک،باب ما جاء فی الشح، ص 240،حدیث:691)

(2)عیب جوئی کرنے والے کی ذلت: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگوں کے وہ گروہ !جو اپنی زبان سے ایمان لائے اور دل سے ایمان نہ لائے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور نہ ان کے عیوب تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیوب تلاش کرتا ہے اللہ پاک اس کے عیوب ظاہر کرتا ہے اور جس کے عیوب اللہ پاک ظاہر فرماتا ہے ، اسے رُسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو۔ (ابو داؤد،کتاب الادب، باب فی الغییبہ، 4/354حدیث:4880)

(3) عیب جوئی کرنے والے کا بد ترین لوگوں میں سے ہونا:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جب دیکھے جائیں تو اللہ یاد آجائے اور اللہ کے بد ترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے ۔ (مراة المناجیح شرح مشکوة المصابیح جلد 6 حدیث: 4871)

(4) عیب جوئی کے سبب شکل اور بگڑنے کی وعید: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: طعنہ زنی، غیبت، چغل خوری اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔(الترغیب و الترھیب،کتاب الادب من النمیمہ،حدیث :4333)

(5) عیب جوئی کرنے کے سبب ردغۃ الخبال (جہنمیوں کے خون و پیپ جمع ہونے کے مقام) میں قیام:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغة الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل نہ آئے ۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیہ، باب فی من یعین علی ۔۔۔۔۔الخ،3 /427 ،حدیث: 3597)

اس تمام گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمیں بھی عیب جوئی سے بچنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات جب ہم کسی کے عیب پر مطلع ہوتے ہیں اور وہ شخص بھی یہ جانتا ہوں کہ ہم اس کے عیب کو جانتے ہیں پھر اگر ہم اس شخص کو تنہائی میں سمجھائیں تو ایسا شخص نصیحت کو قبول کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کے زیادہ قریب ہوتا ہے جبکہ اس کہ برعکس اگر ہم اس کا عیب ظاہر کردیں تو یہ شخص سب کے سامنے شرمندہ ہوجاتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ اس کی وجہ سے ہم سے دشمنی یا بغض و حسد کرے ۔ اللہ پاک ہمیں عیب جوئی سے بچنے اور مسلمانوں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)