محمد فرحان علی(درجۂ سادسہ
جامعۃ المدینہ فیضان حسن وجمال مصطفیٰ کورنگی کراچی، پاکستان)
"عیب جوئی" اس کا مطلب واضح ہے یعنی کسی کے عیب تلاش
کرنا۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) صدر
الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ "خزائن
العرفان" میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی
نہ کرو اور ان کے چھپے حال کی جستجو میں نہ رہو کہ جسے اللہ پاک نے اپنی ستّاری سے
چھپایا ۔ ( خزائن العرفان ، الحجرات ، تحت الآیۃ 12) اس بات میں کوئی دو رائے
نہیں کہ اپنے کسی بھی مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب کو تلاش کرنا یا اس کے لیے کوششیں
کرنا شرعاً ممنوع ہے اور عیب جوئی خود ایک عیب ہے ۔ عیب جوئی کی مذمت میں پانچ
فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درج ذیل ہیں:
(1)پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے وہ لوگو! جو زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو
مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کو ایذا مت دو ، اور نہ
ان کے عیوب کو تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک
اس کا عیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرما دے تو اُسے رسوا کر
دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں ہو۔ ( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی
الغیبۃ، حدیث: 4882)
(2) حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: میں معراج کی رات ایسی قوم کے پاس سے گزرا جو اپنے چہروں اور سینوں کو
تانبے کے ناخنوں سے نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا : اے جبرئیل ! علیہ السّلام ،یہ کون
لوگ ہیں ؟ انہوں نے عرض کی: یہ لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے)تھے اور ان کی
عزت خراب کرتے تھے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، حدیث: 4878)
(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
کیا جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ سب نے عرض کیا: الله اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے
ہیں فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا ناپسندیدہ ذکر کرنا۔ عرض کیا گیا: اگر میرے
بھائی میں وہ عیب ہو جو میں کہتا ہوں ؟ فرمایا: اگر اس میں وہ ہو جوتُو کہتا ہے تو
تُونے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ نہ ہو جو تو کہتا ہے تو تونے اسے بہتان
لگایا۔ ( صحیح مسلم، کتاب البروالصلةوالآداب، باب تحریم الغیبۃ، حدیث: 2589)
(4) نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ الله کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب دیکھے جائیں
تو الله یاد آجائے اور الله کے بدترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں، دوستوں کے
درمیان جدائی ڈالنے والے، پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے ۔ (مسند احمد ، مسند
الشامیین، حدیث: 17998)
(5) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: معراج کی رات میں ایسی عورتوں اور مَردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے
ساتھ لٹک رہے تھے، تو میں نے پوچھا: اے جبرئیل! علیہ السّلام ،یہ کون لوگ ہیں ؟
انہوں نے عرض کی: یہ منہ پر عیب لگانے والے اور پیٹھ پیچھے برائی کر نے والے ہیں اور
ان کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ
لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی
کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1) ( شعب الایمان ، الرابع و الاربعون من شعب الایمان... الخ ، فصل
فیما ورد من الاخبار فی التشدید... الخ ، حدیث: 6326)
محترم قارئین! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ کس طرح احادیثِ
مبارکہ میں عیب جوئی کی مذمّت اور اس کے متعلق وعیدیں بیان ہوئی ہیں تو ہمیں بھی
چاہیے کہ ہم حتی الامکان اس گناہ سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے
کہ اللہ پاک ہمیں عیب جوئی سے بچنے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم