﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1) ایک اور مقام میں اللہ پاک نے فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ26،الحجرات:12)

حدیثِ پاک حضرت راشد بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میں ایسی عورتوں اور مَردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک رہے تھے، تو میں نے پوچھا: اے جبرئیل! علیہ السّلام ،یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے عرض کی: یہ منہ پر عیب لگانے والے اور پیٹھ پیچھے برائی کر نے والے ہیں اور ان کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1)

آیت مبارکہ ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے۔ ایک عبرت ناک حدیث پاک : حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے وہ لوگو ! جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لئے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کے عیب ظاہر فرمادے گا اور جس کے اللہ پاک عیب ظاہر کرے گا۔ اس کو رُسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔(ابو داؤد، 4/354، حدیث:4880)

اس سے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان کی غیبت اور عیب تلاش کرنا منافق کا شعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت اور رسوائی ہیں کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہیں ، یقیناً اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل اور خوار ہو جائے۔ لہذا ! عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر نہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرمادے جس سے وہ ذلت اور رسوائی سے دوچار ہو جائیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کو بھول جاتا ہے۔ (شعب ایمان) اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے، اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو اپنے مسلمان بھائی کی عیب پوشی کرے اللہ پاک قِیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب ظاہِر کرے اللہ پاک اُس کا عیب ظاہِر فرمائے گا یہاں تک کہ اُسے اُس کے گھر میں رُسوا کر دے گا۔(ابن ماجہ، 3/219،حدیث:2546 )

عیب ڈھونڈنے کی مثالیں ملاحظہ ہو: (1)آپ کی بیوی شریف تو ہے نا ؟(2) لڑتی تو نہیں (یہی سوالات عورتوں میں شوہر کے بارے میں عیوب کی ٹٹول والے ہیں) (3) لڑاکی تو نہیں ؟ (4) روٹی دیتی ہیں یا نہیں (5) اپنے بیٹے کے کان تو نہیں بھرتی ؟ (6) اُس دن فُلاں کے گھر سے تیز گفتگوکی آواز آ رہی تھی کو ن کون لڑ رہے تھے (7) فُلاں کو تنظیمی ذِمے داری سے ہٹادیا، کیا اس کا کردار کمزور تھا؟ (8) فلاں ڈاکٹر نے صحیح طرح چیک بھی کیا یا مفت میں فیس وصول کرلی؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تجسس نہ کرو اور خبریں معلوم نہ کرو، اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرو اور سب اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔ (بخاری شریف)