عیب جوئی کی تعریف: لوگوں کی خفیہ (چھپی ہوئی) باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا عیب جوئی کہلاتا ہے ۔ (ظاہری گنا ہوں کی معلومات ،ص73)

عیب جوئی کا دنیوی و اخروی انجام: یہ بڑی ہی چھچھوری حرکت اور خراب عادت ہے۔ دنیا میں اس کا انجام بدنامی اور ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں اس کی سزا جہنم کا عذاب ہے ایسا کرنے والوں کے کانوں اور آنکھوں میں قیامت کے دن سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ (جنتی زیور ،ص123)

عیب جوئی کی چند مثالیں : کسی سے یہ پوچھنا رات دیر تک جاگتے رہتے ہو فجر بھی پڑھتے ہویا نہیں، آپ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں ؟ نیز آپ کے والد صاحب نمازی ہیں یا نہیں؟ ، تم پوری زکوٰۃ نکالتے ہو یا نہیں ؟ رمضان کے مہینے میں کسی سے پو چھینا : واہ بھئی! آج بڑے فریش یعنی تازہ دم لگ رہے ہو روزہ بھی رکھا ہے یا نہیں؟

عیب جوئی کے متعلق احکام : مسلمان کی عیب جوئی (یعنی اس کے عیب تلاش کرنا) حرام ہے۔ (ظاہری) گناہوں کی معلومات ص: 72) (2) بے دین، مفسدین (فساد کرنے والوں) کے حالات چھپ کر دیکھنا سننا تا کہ ان کے فساد کی روک تھام ہو سکے ، جائز ہے۔ (3) نوکر رکھنے ، شراکت داری (یعنی پارٹنر شپ کرنے ) یا کہیں شادی کا ارادہ ہے تو حسبِ ضرورت معلومات کرنا گناہ نہیں۔ (4) بلا مصلحت شرعی کسی مسلمان کا عیب معلوم کرنا گناہ و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔( نیکی کی دعوت ،ص397) (5) مسلمان کو چاہیے اول تو لوگوں کے عیوب جاننے سے بچے اگر کوئی بتانے لگے تب بھی سننے سے خود کو بچائے ۔ بالفرض کسی طرح کا عیب نظر آ گیا یا معلوم ہو گیا ہو تو اس کو دبا دیجئے۔ بلا مصلحت شرعی ہر گز کسی پر ظاہر نہ کرے۔ (نیکی کی دعوت، ص: 398)

عیب جوئی کے متعلق فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : اے لوگوں کے وہ گروہ !جو اپنی زبان سے ایمان لائے اور دل سے ایمان نہ لائے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور نہ ان کے عیوب تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیوب تلاش کرتا ہے اللہ پاک اس کے عیوب ظاہر کرتا ہے اور جس کے عیوب اللہ پاک ظاہر فرماتا ہے ، اسے رُسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو۔ (ابو داؤد،کتاب الادب، باب فی الغییبہ، 4/354حدیث:4880)

عیب جوئی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: بغض و کینہ ،حسد،چغل خوری کی عادت ( ایسا شخص ایک دوسرے تک باتیں پہنچانے کیلئے لوگوں کے عیب تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے ) ۔