حضرت لوط علیہ السلام کو منصبِ نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ اُردن کے مشرق اور فلسطین کے درمیان بحرِ مردار کے کنارے جنوبی حصّے میں سرسبز و شاداب علاقے تھے۔ یہ علاقے سُدوم اور عمورہ کے نام سے مشہور تھے ۔ ان علاقوں میں پانی وافر مقدار میں ہونے کی وجہ سے زمین زرخیز تھی۔ کھیتی باڑی بھی خوب ہوتی تھی۔ ہر قسم کے پھل، سبزیوں اور باغات کی کثرت تھی۔ یہاں کے لوگوں کو زندگی کی تمام تر آسائشیں حاصل تھیں۔انسان کے اَزلی و ابدی دشمن شیطان نے انہیں گمراہ کرنے کا یہ ’’بہترین موقع‘‘ ہاتھ سے نہ جانے دیا اور ابلیس نے اس خوشحالی اور آسائش کی زندگی کو ان کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔جس  کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بستیوں کے مکین اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اپنے زور بازو پر مَحمول کرنے لگے اور عطائے خداوندی کو انہوں نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ رب کائنات کا خوف اور خشیت جب ان کا مقصود نہ رہا تو وہ غرور و تکبر سے بدمست ہو گئے اور یہی وہ غرور و تکبر تھا جس نے عزازیل جیسے عبادت گزار کو تا قیام قیامت شیطانیت کے وصف سے موسوم کر دیا اور اس کی تباہی کا موجب بن گیا۔ تکبر نے ہی عزازیل کو ذلیل و رسوا کر دیا اور اس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال دیا۔ اسی غرور کی بنا پہ اہل سدوم ان وادیوں کی سرسبزی اور شادابی کو اپنی ملکیت مانتے تھے اور دوسرے علاقوں کے باشندوں کا ان نعمتوں سے مستفید ہونا گواراہ نہیں کرتے تھے ۔

اسی طرح ان کی ایک اور بڑی نافرمانی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے قدرت کا مقرر کردہ طریقہ کار چھوڑ کر عورتوں کے بجائے مردوں اور لڑکوں سے اختلاط رکھنا اس قوم کا دستور بن گیا۔ سب سے پہلے ابلیس خود ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں مہمان بن کر اس بستی میں داخل ہوا۔ اور ان لوگوں سے خوب بدفعلی کرائی ۔اس طرح یہ فعلِ بد ان لوگوں نے شیطان سے سیکھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرنے لگے خباثت اور بے حیائی کی انتہا یہ تھی کہ عوام الناس سے لے کر قوم کے سردار اور حاکم تک اس عمل بد کو عیب نہیں گردانتے تھے بلکہ علی الاعلان فخریہ انداز میں اس کا تذکرہ کرتے تھے اور محفلوں میں ناپسندیدہ حرکات بیان کرتے تھے حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھانا اور اس فعل بد سے منع کرنا شروع کر دیا مگر یہ سرکش قوم اپنے بیہودہ افعال سے باز نہ آئی۔

اس قوم نے حضرت لوط علیہ السلام کی گستاخی بھی کی حضرت لوط علیہ السلام نے اپنے مہمانوں پر دروازہ بند کر لیا۔ پس وہ آئے اور انہوں نے دروازہ توڑا اور اندر داخل ہوگئے۔

اصلاح اور تزکیہ نفس کے لئے ہدایت کا یہ تربیتی پروگرام قوم پر نہایت شاق گزرا۔ وہ حضرت لُوط علیہ السلام سے متنفّر رہنے لگے اور ان کی سبق آموز باتوں کواپنی عیاشی کی زندگی کے لئے ایک رکاوٹ تصور کرنے لگے۔اورنوع انسانی کا یہ سرکش گروہ نافرمانی و بے حیائی اور اخلاق سوز افعال پر مُصر رہا۔جس بنا پر ان پر عذاب الہی مسلط ہوا۔