حضرت لُوط علیہ الصلوۃوالسلام کا
شہر”سَدُوم“ہے جو ملکِ شام میں صوبہ ”حِمص“کا ایک مشہور شہر ہے حضرت لوط
علیہ الصلوۃوالسلام عراق کے شہر ”بابل “کے باشندے تھے پھر آپ وہاں سے ہجرت کر کے
”فلسطین“تشریف لے گئے آپ ملکِ شام کے ایک شہر” اُردن“میں مقیم ہوگئے اللہ تعالٰی
نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور سدوم والوں
کی ہدایت کے لیے بھیج دیا ایک روز حضرت لوط علیہ الصلوۃوالسلام کی قوم میں
شیطان امردِ حَسین (یعنی خوبصورت لڑکے)کی شکل میں آیا اور اُس قوم کو اپنی جانب مائل
کیایہاں تک کہ وہ بدفعلی میں کامیاب ہوگیایہ قوم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی
خواہش پوری کرنے لگے (ماخذ مکاشفۃ
القلوب ص76)
جب قوم لوط کی سرکشی اور بدفعلی قابل ہدایت نہ رہی تو اللہ
عزوجل کا عذاب آگیا چنانچہ حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام
چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر آسمان سےاتر پڑے پھر یہ مہمان بن کرحضرت
لوط علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس پہنچے اور یہ سب فرشتے بہت حسین اور خوبصورت
لڑکوں کی شکل میں تھے ان مہمانوں کے حسن وجمال کو دیکھ کر اور اپنی قوم کی بدکاری
کا خیال کرکےحضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام بہت فکر مند ہوئے تھوڑی دیر بعد
قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ
الصلاۃ والسلام کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادہ
سے دیوار پر چڑھنے لگے حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام نے نہایت دل سوزی کے
ساتھ ان لوگوں کو سمجھانا اور اس برے کام سے منع کرنا شروع کر دیا مگر یہ بدفعل
اور سرکش قوم اپنے بےہودہ جواب اور برےاقدام سے باز نہ آئی تو آپ اپنی تنہائی اور
مہمانوں کےسامنے رسوائی سے تنگ دل ہو کر غمگیں ورنجیدہ ہوگئے۔تو حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اے اللہ عزوجل کے نبی آپ
بالکل کوئی فکر نہ کریں ہم لوگ اللہ عزوجل کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو ان بدکاروں
پر عذاب لے کر اترےہیں لہٰذا آپ مومنین اور اپنے اہل وعیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے
سے قبل ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبر دار کوئی شخص پیچھے مڑ کر اس بستی کی
طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہوجائے گاچنانچہ
حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام اپنےگھر
والوں اور مومنین کو ہمرہ لے کر بستی سے باہر نکل گئے پھر حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام اس شہر کی
پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اوپر جا کر
ان بستیوں کو الٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چُور ہو کر زمین پر بکھر
گئیں پھر کنکرکےپتھروں کا مینہ برسا اور اس زور سے سنگ باری ہوئی کہ قوم لوط کے
تمام لوگ مرگئے اور ان کی لاشيں بھی ٹکڑےٹکڑے ہو کر بکھر گئیں عین اس وقت جب کہ یہ
شہر الٹ پلٹ ہورہا تھا حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام کی ایک بیوی جس کا نام
"واعلہ" تھا جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی
تھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہاکہ "ہائے رے میری قوم " یہ کہہ کر کھڑی ہوگئی پھر عذاب الٰہی کا ایک
پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اوروہ بھی ہلاک ہوگئی چنانچہ
قرآنِ پاک میں حق
تعالٰی کا ارشاد ہے کہ (تو ہم نے اسے اوراس کے گھروالوں کو نجات دی مگراس کی عورت
وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان
پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا) (پ8،الاعراف:84،83)جو پتھر
اس قوم پر برسائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے اور ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا ۔
(تفسیرصاوی، ج2،ص691)
درس ہدایت:اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ لواطت کس قدر شدید اور ہولناک
گناہ کبیرہ ہے کہ اس جرم میں قوم لوط کی بستیاں الٹ پلٹ کردی گئیں اور مجرمین
پتھراؤ کے عذاب سے مر کر دنیا سے نیست ونابود ہوگئے۔ منقول ہے کہ حضرت سلیمان
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک مرتبہ ابلیس لعین سے پوچھا کہ اللہ عزوجل
کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ نا پسند ہے۔؟تو ابلیس نے کہا کے سب سے زیادہ اللہ
عزوجل کویہ گناہ ناپسند ہے کہ مرد،مردسے بدفعلی کرے اور عورت ،عورت سے اپنی خواہش
پوری کرے اور حدیث پاک میں ہے کہ عورت کا اپنی فرج کو دوسری عورت کی فرج سے رگڑنا
یہ ان دونوں کی زنا کاری ہےاورگناہ کبیرہ
ہے۔