حضرتِ لوط علیہ السلام حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔اللہ تعالٰی نے آپ کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث فرمایا ۔ (صراط الجنان ،3/362 )

حضرتِ لوط علیہ السلام کی قوم انتہائی نافرمان اور بے ہودہ قوم تھی اور ان کی سب سے بڑی نافرمانی شرک تھی ۔ یہ قوم حضرتِ لوط علیہ السلام کو جھٹلاتی اور عذاب کی وعیدات سے نہ ڈرتی اور ہدایت حاصل نہ کرتی تھی ۔ (صراط الجنان ، 7/147)

شرک کے بعد اس قوم کا سب سے قبیح اور ذلیل فعل جو ان سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا تھا کہ یہ قوم حلال طیب عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے بد فعلی جیسے حرام اور خبیث چیز میں مبتلا تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لوگ مسافروں کے ساتھ بھی بد فعلی کرتے تھے حتّٰی کہ لوگوں نے اس طرف گزرنا موقوف کردیا ۔ (صراط ا لجنان ، 7/369)

حضرتِ لوط علیہ السلام کی قوم بد فعلی کے علاوہ ایسے ذلیل افعال اور حرکات کے عادی تھے جو عقلی اور عرفی دونوں طرح قبیح اور ممنوع تھے ، جیسے راہ گیروں کو قتل کر کے ان کا مال لوٹ کر لوگوں کا راستہ کاٹتے اور اپنی مجلسوں میں برے کام اور بری باتیں کرتے ، گالیاں دیتے ، فحش بکتے ، تالی اور سیٹیاں بجاتے ، ایک دوسرے پر کنکری وغیرہ پھینکتے ، شراب پیتے ، مذاق اُڑاتے ، گندی باتیں کرتے اور ایک دوسرے پر تھوکتے تھے ۔(صراط الجنان ،7/370)

حضرت لوط علیہ السلام نے اس قوم کو ان قبیح و ذلیل حرکات سے منع فرمایا اور نصیحت کی تو اس قوم نے جواباً دھمکی دی کہ اگر تم ہمیں روکنے سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں اس شہر سے نکال دیں گے ۔ (صراط الجنان ،7/147)

جب اس قوم کے راہِ راست پر آنے کی امید باقی نہ رہی تو حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے عذاب نازل کرنے والی وعید کو پورا کرنے کے لیے دعا فرمائی۔(صراط الجنان ،7/370)

اوراللہ تعالٰی نے قومِ لوط کو دردناک عذاب میں مبتلا کیا کہ پہلے اس بستی کو آسمان کی طرف اٹھا کر زمین پر دے مارا پھر آسمان سے پتھر یا گندھک اور آگ کی بارش برسائی ۔

(صراط الجنان ،7/148)

اللہ تعالٰی ہمیں اپنی پکڑ سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم