حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلام اُردن میں اُترے تواللہ پاک نے آپ کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث فرمایا۔آپ علیہ السلام ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بد سے روکتے تھے۔قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت”لواطت“یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا، اس پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:ترجمۂ کنز الایمان:کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو،جو سارے جہاں میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کے لئے مَردوں کے پاس جاتے ہو،یقیناً تم حد سے گزر چکے ہو۔ (تفسیر صراط الجنان، پ 8،الاعراف، الآیۃ: 80- 81 ماخوذ اً)

قومِ لوط اس خبیث جُرم کا شکار اس طرح ہوئی کہ ابلیسِ لعین حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا،یہاں تک کہ گندہ کام کروانے میں کامیاب ہوگیا،اس کااُن کو ایسا چسکا لگا کہ وہ اس بُرے کام کے عادی ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔

(مکاشفۃ القلوب، ص 76 ماخوذ اً)

حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو سمجھایا اور منع کیا،لیکن آپ کی بد بخت قوم نے دنیا و آخرت کی بھلائی پر مشتمل بیانِ عافیت نشان کو سُن کر بجائے سر تسلیمِ خم کرنے کے جو بے حیائی کے ساتھ جواب دیا، اس کے بارے میں قرآنِ پاک میں مذکور ہے:

ترجمۂ کنز الایمان: اور اس قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔

(تفسیر صراط الجنان، پ 8،الاعراف،الآیۃ: 82 ماخوذ اً)

جب قومِ لوط کی سرکشی اور خصلتِ بدفعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند ملائکہ کے ہمراہ اَمردِ حسین کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام نہایت فکرمند ہوئے،تھوڑی دیر بعد قوم کے بد فعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکانِ عالیشان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے بُرے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے، حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بَد اِرادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو متفکرو رنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نےکہا:یا نبیَّ اللہ!آپ غمزدہ نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں، آپ مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دُور نکل جائیے اور خبردار! کوئی شخص پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پَروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا، پھران پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کےبھی پَرخچے اُڑ گئے، عین اس وقت جب کہ یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام ”واعلہ“تھا، جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور اُس کے مُنہ سے نکلا:ہائے رے میری قوم!یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی، پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ ہلاک ہوگئی، ارشادِ باری ہے:ترجمۂ کنز الایمان:”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی، مگر اس کی عورت، وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔“بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا تھا، جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔(عجائب القرآن، ص110 تا 112، تفسیر صاوی،2/691 ماخوذ اً)

مذکورہ آیات و واقعات سے معلوم ہوا !اغلام بازی یعنی لواطت قومِ لوط کی ایجاد ہے،یہ بھی معلوم ہوا!لڑکوں سے بد فعلی حرامِ قطعی ہے، اس کا منکر کافر ہے،نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی احادیث اور بزرگانِ دین کے آثار میں لواطت کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے تم پر قومِ لوط والے عمل کا سب سے زیادہ خوف ہے۔( ابنِ ماجہ، کتاب الحدود، باب من عمل عمل قومِ لوط،3/230، حدیث: 2563 ماخوذ اً)حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:لَعَنَ اللہُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ یعنی اس شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہو جو قومِ لوط والا عمل کرے۔(سنن کبری للنسائی، ابواب التغیرات والشہود، حدیث: 7337) معلوم ہوا! عورتوں کا عورتوں سے بدفعلی کرنا اور مَردوں کا مَردوں سے خاص انداز سے ملنا یعنی بد فعلی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے،نیز جو قومِ لوط کا سا عمل کرے اسے حدیثِ مبارَکہ میں ملعون کہا گیا ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام گھناؤنے جُرموں سے بچنے اور خوفِ خدا کو دل میں بسائے رکھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین(تفسیر صراط الجنان،پ8، الاعراف، الآیۃ:80 تا81)


دُرود پاک کی فضیلت

فرمانِ صدیقِّ اکبر ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر دُرودِ پاک پڑھنا گناہوں کو اس قدر جلد مٹاتا ہے کہ پانی بھی آگ کو اتنی جلدی نہیں بجھاتا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر سلام بھیجنا گردنیں(یعنی غلام) آزاد کرنے سے افضل ہے۔(تاریخِ بغداد، 7/ 172)

ارشادِ باری ہے:ترجمہ:کیا مخلوق میں مَردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور چھوڑتے ہو وہ جو تمہارے لئے تمہارے ربّ نےجو روئیں بنائیں، بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو۔ (پ19، الشعراء:125- 126)

قومِ لوط کے افعال:

سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:1۔شطرنج کھیلنا، 2۔گدھوں کی دوڑ کا مقابلہ کرانا، 3۔ کتوں میں لڑائی کروانا، 4۔مینڈھوں کی آپس میں ٹکر مروانا، 5۔مرغ بازی کرنا، 6۔تہبند کے بغیر حمام میں جانا، 7۔ناپ تول میں کمی کرنا۔یہ سب قومِ لوط کے افعال ہیں، ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو اچھے کام کرے، 8۔اور ان کا سب سے بڑا گناہ عورت کا عورت سے اور مرد کا مرد سے لواطت(یعنی بدفعلی) کرنا تھا۔جب انہوں نے حیا کی چادر سَروں سے اُتار پھینکی اور اللہ پاک کی نافرمانیوں پر دلیرہو گئے تو اللہ پاک نے لوگوں کو سَروں کے بل اوندھا گرا دیا، ان کے شہروں کو الٹ دیا اور آسمان سے پتھروں کی بارش برسا کر انہیں عذاب دیا۔

سات قسم کے لوگوں پر لعنت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:سات قسم کے لوگوں پر اللہ پاک لعنت فرماتا ہے اور قیامت کے دن ان کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا،نیز ان سے کہا جائے گا: جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی اس میں داخل ہو جاؤ۔

سات افراد

1۔قومِ لوط کاسا عمل کرنے والا اور 2۔کروانے والا، 3۔ماں اور اس کی بیٹی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے والا، 4۔اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا،5۔عورت کے پچھلے مقام میں وطی کرنے والا،6۔مشت زنی کرنے والا، مگر یہ کہ وہ توبہ کرلے،7۔اپنے پڑوسی کو ایذا دینے والا۔

شیطان کا پسندیدہ عمل

حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام نے شیطان ملعون سے پوچھا:تجھے کونسا عمل(یعنی گناہ) زیادہ پسند ہے؟ ابلیس لعین نے کہا: مجھے لواطت سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں اور چونکہ اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل یہ ہے کہ مرد کے اوپر مرد اور عورت کے اوپر عورت آئے(یعنی بدفعلی کرے) اس لئے مجھے اس سے زیادہ محبوب کوئی عمل نہیں۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:تو ہلاک ہو جائے، ایسا کیوں ہے؟ اس نے کہا:اس لئے کہ جس کو اس کی عادت پڑ جاتی ہے، ایک گھڑی صبر نہیں آتا، اس لئے اس پر اللہ پاک کا شدید غضب ہوتا ہے اور جس پر اللہ پاک کا شدید غضب ہو جائے، وہ اسے توبہ سے روک دیتا ہے۔

لواطت کی دنیاوی سزا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو قومِ لوط کا سا عمل کرے(یعنی مرد سے بدفعلی) تو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔(نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں)

لواطت کی مذمت میں تین فرامینِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :

1۔بدفعلی کرنے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔

2۔جو قومِ لوط کا سا عمل کرے، اس پر اللہ پاک کی لعنت ہے۔

3۔عورتوں کا آپس میں شرمگاہیں ملانا، ان کا باہمی زنا ہے۔(76 کبیرہ گناہ)

افسوس!آج یہ بُرائیاں ہمارے معاشرے میں بھی پائی جاتی ہیں،خدارا! اللہ پاک کے عذاب سے خود کو ڈرائیے اور برائیوں سے بچئے، ورنہ یاد رکھیے!اللہ پاک کا عذاب بڑا سخت ہے۔

کر لے توبہ ربّ کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہو گی کڑی


اللہ پاک نے جن قوموں اور اُمتوں کا ذکر قرآنِ پاک میں نشانِ عبرت کے طور پر فرمایا ہے انہی قوموں میں سے ایک قوم ”سَدوم“بھی ہے۔  یہ قوم ”غور وزعز“ کے علاقے سدوم شہر میں آباد تھے، یہ علاقہ کئی بستیوں پر مشتمل تھا، اس قوم کی طرف اللہ پاک نے ہدایت و راہ نمائی کے لئے حضرت لوط علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے، ان کو حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ پاک کی طرف بُلایا کہ ایک اللہ پاک کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں،نیز ان کو بُرائی و بے حیائی کے کاموں سے روکا، لیکن وہ ان کاموں سے رُکنا تو کُجا، مزید سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے ہی گئے اور اپنے فسق و فُجور اور کفر کی راہوں پر قائم رہے،جس کے نتیجے میں اللہ پاک نے ان پر ایسا عذاب بھیجا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور انہیں بعد میں آنے والوں کے لئے باعثِ عبرت بنا دیا۔ قومِ لوط پر آنے والے عذاب کا قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ذکر ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے اس بستی کے اوپر کے حصّے کو اس کے نیچے کا حصّہ کر دیا اور اس پر لگاتار کنکر کے پتھر برسائے۔(پ 11، ھود: 82)

اس قوم کی جن نافرمانیوں کا ذکر قرآنِ مجید میں ہوا ہے، وہ یہ ہیں:

(1)رسولوں کو جھٹلانا۔(سورہ شعراء، آیت نمبر 140)

(2)مَردوں کا مَردوں سے بدفعلی کرنا۔(سورۃ النمل، آیت نمبر 55)

(3)لوگوں کا راستہ کاٹنا اور راہزنی کرنا۔(سورہ العنکبوت، آیت نمبر29)

(4)اپنی مجلسوں میں بُرے کام کرنا۔(سورہ العنکبوت، آیت نمبر 29)

(5)حضرت لوط علیہ السلام کا مذاق اُڑاتے ہوئے ان سے عذاب کا مطالبہ کرنا۔(العنکبوت، آیت نمبر 29)

غرض کہ یہ لوگ بدفعلی کے علاوہ بھی کئی طرح کے افعال اور حرکات کے عادی تھے جو عقلی اور عُرفی دونوں اعتبار سے قبیح اور ممنوع تھے، جیسے گالی دینا، فُحش بکنا، تالی اور سیٹیاں بجانا، راستہ چلنے والوں پر کنکری وغیرہ پھینکنا، شراب پینا، مذاق اُڑانااور ایک دوسرے پر تھوکنا وغیرہ۔

معزز قارئین!ہمیں اپنی مجلسوں اور بیٹھکوں پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں یہ تمام بُرائیاں ہمارے درمیان تو موجود نہیں؟ یاد رکھئے!اگر ہم نے اس قوم کے عذاب سے عبرت کا سامان نہیں کیا تو اللہ پاک کا عذاب بڑا سخت ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:یعنی”اگر تم مکمل طور پر ترک قومِ سدوم جیسے نہیں ہو تو یہ قوم تم سے اتنی بھی دُور نہیں۔اللہ پاک ہمیں مرتے دم تک صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

کر لے تو بہ ربّ کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی

العیاذ باللہ من ذالک


اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں 27 انبیائے کرام کا ذکر صراحت کے ساتھ ذکر فرمایا اور اللہ پاک نے مختلف اوقات میں مختلف قوموں کی طرف پے در پے انبیا و مرسلین کو لوگوں کی ہدایت اور نصیحت کے لئے روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجے۔ قرآنِ پاک میں واقعاتِ انبیا بیان کرنے کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ لوگ ان واقعات کو سُن اور سمجھ کر سابقہ حالات جانیں اور عبرت حاصل کریں، گزشتہ اُمتوں کے واقعے میں ایک واقعہ ”قومِ لوط“ کا بھی ہے۔حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث کیا، آپ ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بد سے روکتے تھے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور لوط کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا: کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔(پارہ نمبر 8، سورۃ الاعراف، آیت نمبر 80)

قومِ لوط میں ہم جنس پرستی کی ابتدا ایسے شروع ہوئی کہ اس قوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت سرسبزو شاداب تھیں۔ وہاں طرح طرح کے اناج اور پھل میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے، اس خوشحالی کی وجہ سے یہاں بکثرت مہمان آتے تھے۔یہاں کے لوگ مہمان کی آمد سے بہت ہی تنگ ہو گئے تھے، اس ماحول میں ابلیسِ لعین نے انہیں بہکایا کہ جب مہمان آئے تو ان سے خوب بدفعلی کرو!انہوں نے یہ کام شیطان سے سیکھا۔(سیرت الانبیاء، ص378)

حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو بدفعلی سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن یہ قوم اپنی نافرمانیوں سے باز نہ آئی تو اللہ پاک نے ان پر پتھروں کی خوفناک بارش برسائی جوگندھک اور آگ سے مُرکّب تھی۔قرآنِ پاک میں ارشادِ باری ہے:

ترجمۂ کنزالایمان:تو دن نکلتے ہی انہیں زور دار چیخ نے آپکڑا، تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصّہ اس کے نیچے کا حصّہ کر دیا اور ان پر کنکر پتھر برسائے۔ (پ14، الحجر: 73 -74)

حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی جس کا نام واعلہ تھا، وہ آپ علیہ السلام پر ایمان نہ لائی، بلکہ کافرہ ہی رہی، یہ بھی عذاب میں مبتلا ہوئی، قرآنِ پاک میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان:تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی، مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی۔ (پ 8، الاعراف:83)

قومِ لوط جن نافرمانیوں میں مبتلا تھی، ان میں سے چند یہ ہیں:کفر و شرک کرنا، حضرت لوط علیہ السلام کی تکذیب کرنا، مسافروں کی حق تلفی کرنا، کبوتربازی کرنا،تالیاں اور سیٹیاں بجانا،شراب پینا،گانے باجے کے آلات بجانا،مَردوں اور نوجوانوں لڑکوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بدفعلی کرنا، مجلسوں میں فحش باتیں کرنا۔(سیرت الانبیاء، ص378)

اگر ہم ان نافرمانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی سطح پر لوگوں کے حالات کا جائزہ لیں تو قومِ لوط کے اعمال میں سے شاید ہی کوئی ایسا عمل ہو جو فی زمانہ لوگوں میں نہ پایا جاتا ہو،بلکہ اُن سے بہت زیادہ گندے اعمال میں زیادہ شدّت کے ساتھ مبتلا نظر آتے ہیں اور انتہائی افسوس!اس زمانے میں مسلمانوں کی ایک تعداد بھی ان اعمال میں مبتلا نظر آتی ہے۔اللہ پاک انہیں ہدایت نصیب فرمائے۔

آمین


اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے بے شمار انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے، ان میں سے ایک پیارے نبی حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں،حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے نبی بنائے گئے۔(نورالعرفان، ص 200)اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو سدوم کا نبی بنا کر بھیجا،سدوم شہر کی بستیاں نہایت سرسبزو شاداب تھیں، وہاں طرح طرح کے اناج اور قسم قسم کے میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے، اس خوشحالی کی وجہ سے اکثر لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آیا کرتے تھے اور شہر کے لوگوں کو ان کی مہمان نوازی کا بار اُٹھانا پڑتا تھا،جس کی وجہ سے شہر کے لوگ تنگ ہو چکے تھے، انہیں اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی، ایسے میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا اور مشورہ دیا کہ اگر ان سے نجات چاہتے ہو تو جب یہ مہمان آئیں تو تم زبردستی ان کے ساتھ بدفعلی کرو۔چنانچہ سب سے پہلے شیطان خود ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں بستی میں داخل ہوا اور ان سے خوب بد فعلی کروائی، اس طرح یہ فعلِ بد اُن لوگوں نے شیطان سے سیکھا اور پھر ان لوگوں کو اس کام کا ایسا چسکا لگا کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے فرمایا،جس کا ذکر قرآنِ مجید میں ان الفاظ سے کیا گیا ہے،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو،جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تو تم مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔(پ 8،الاعراف: 80-81)یہ فرمانِ عافیت نشان سُن کر قوم نے بے حیائی اور بے باکی کے ساتھ جواب دیا:ترجمۂ کنزالایمان:اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ 8، الاعراف:82)قوم کی سرکشی اور نافرمانی حد سے بڑھ گئی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ خوبصورت لڑکوں کی شکل میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے،مہمانوں کے حسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام فکرمند ہوئے، تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا:یا نبی اللہ!آپ غمگین نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں،آپ اپنے اہل و عیال اور مؤمنین کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے اس بستی سے نکل جائیے اور خبردار!کوئی شخص پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے،ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا،چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام گھر والوں اور مؤمنوں کو ساتھ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اُس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور اُوپر جا کر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا، پھر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کے پرخچے اُڑ گئے،عین اس وقت جب یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی ”واعلہ“ جو منافقہ تھی،قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی،اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور اس کے مُنہ سے نکلا:ہائے رے میری قوم!یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی اور پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس پر بھی آ گرا اور وہ بھی ہلاک ہوگئی۔پارہ 8، سورۃ الاعراف آیت نمبر 83 اور 84 میں ربّ کریم کا ارشاد ہے:ترجمہ ٔکنزالایمان:”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی،مگراس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں سے ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا، مجرموں کا۔“بدکار پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا، جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔(عجائب القرآن، ص 110 تا112، تفسیر صاوی، 2/ 691)

اے عذاب سہنے کی طاقت نہ رکھنے والو!اگر کبھی کسی اَمرد کو شہوت کے ساتھ دیکھ کر لواطت کا خیال بھی دل سے گزرا ہے تو ربّ کریم کی بارگاہ میں توبہ کر لیجئے، بے شک ربّ کریم معاف فرمانے والا ہے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر ظاہری و باطنی گناہ سے بالخصوص لواطت جیسے غلیظ گناہ سے محفوظ فرمائے۔آمین

عطار ہے ایمان کی حفاظت کا سوالی خالی نہیں جائے گا یہ دربارِ نبی سے

(وسائل بخشش، ص 17)


اللہ کریم نے انسانوں کی ہدایت کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے،انہی میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں،اللہ کریم نے حضرت لوط علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا،جو لواطت جیسے غلیظ و گھناؤنے فعل میں ملوث تھے،پھر اُن لوگوں کے ہدایت قبول نہ کرنے پر آپ علیہ السلام کو اس بستی سے نجات عطا فرمائی،ربّ کریم فرماتا ہے: ترجمہ:اور اسے اس بستی سے نجات بخشی، جو گندے کام کرتی تھی، بے شک وہ بُرے لوگ نافرمان تھے۔(سورۂ انبیاء)

قوم کے بُرے اعمال

حضرت لوط علیہ السلام جس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، وہ وقت کے بد ترین گناہوں، بُری عادات اور قابلِ نفرت افعال میں مبتلا تھی، اعمال و افعال کی فہرست ملاحظہ ہو:٭کفر و شرک کرنا، ٭ حضرت لوط علیہ السلام کی تکذیب، ٭ واجب حقوق کی ادائیگی میں بخل کرنا، ٭صدقہ نہ دینا، ٭مسافروں کی حق تلفی، ٭مسافروں پر ظلم و ستم کرنا، ٭ان کا مال لوٹ لینا، ٭ان سے زبردستی بدفعلی کرنا،٭راہ گیروں کو کنکریاں مارنا، ٭کبوتر بازی کرنا، ٭ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا، ٭بات بات پر گالی دینا، ٭تالیاں اور سیٹیاں بجانا،٭چغل خوری کرنا،٭ریشمی لباس پہننا،٭گانے باجے کے آلات بجانا،٭شراب پینا،٭مجلسوں میں فحش باتیں کرنا۔

توجہ:مذکورہ بالا اعمال کی فہرست کو سامنے رکھتے ہوئے ہم عالمی سطح پر لوگوں کے حالات کا جائزہ لیں تو قومِ لوط کے اعمال میں سے شاید ہی کوئی ایسا عمل ہو، جو فی زمانہ لوگوں میں نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس سے بہت زیادہ گندے اعمال میں زیادہ شدّت کے ساتھ مبتلا نظر آتے ہیں اور انتہائی افسوس! موجودہ دور میں مسلمانوں کی ایک تعداد بھی ان اعمال میں مبتلا نظر آتی ہے،اللہ پاک انہیں ہدایت عطا فرمائے۔آمین۔(سیرت الانبیاء، ص377 تا378

دُرود شریف کی فضیلت

خلق کے رہبر، شافعِ محشر، محبوبِ ربِّ داور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:جس نے کتاب میں مجھ پر دُرودِ پاک لکھا، تو جب تک میرا نام اس میں رہے گا، فرشتے اُس کے لئے استغفار کرتے رہیں گے۔(معجم اوسط، 1/497، فیضانِ سنت، ص388)

مختصر تعارف

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلام اُردن میں اُترے،اللہ پاک نے آپ کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث فرمایا، آپ ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور انہیں فعلِ بد سے روکتے تھے۔(تفسیر صراط الجنان، 3/ 362) ترجمۂ کنزالایمان: اور لوط کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔(اعراف، الآیۃ: 80) حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے اس طرح وعظ فرمایا: ترجمۂ کنزالایمان:” اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی، تم تو مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔“(الاعراف، الآیۃ: 80/81) حضرت لوط علیہ السلام کے اس اصلاحی اور مصلحانہ وعظ کو سن کر ان کی قوم نے نہایت بے باکی اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ جو کہا اسے قرآنِ پاک کی زبان سے سنئے:ترجمۂ کنزالایمان:”اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔“(الاعراف:82) جب قومِ لوط کی سرکشی اور بد فعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا،چنانچہ حضرت جبرئیل علیہ السلام چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر آسمان سے اُتر پڑے، پھر یہ فرشتے مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور یہ فرشتے بہت ہی حسین اور خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے، ان مہمانوں کے حسن و جمال کو دیکھ کر اور قوم کی بدکاری کا خیال کر کے حضرت لوط علیہ السلام بہت فکرمند ہوئے، تھوڑی دیر بعد قوم کے بد فعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے، حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا اور بُرے کام سے منع کرنا شروع کر دیا، مگروہ فعلِ بد اور سرکش قوم اپنے بےہودہ جواب اور بُرے اقدام سے باز نہ آئی تو آپ اپنی تنہائی اور مہمانوں کے سامنے رسوائی سے تنگ دل ہو کر غمگین و رنجیدہ ہوگئے، یہ منظر دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا:اے اللہ پاک کے نبی!آپ بالکل کوئی فکر نہ کریں، ہم لوگ اللہ پاک کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، جو ان بدکاروں پر عذاب لے کر اُترے ہیں، لہٰذا مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے قبل ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار !کوئی شخص پیچھے مڑ کر اس بستی کی طرف نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا،چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر نکل گئے،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پَروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو اُلٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چور ہو کر زمین پر بکھر گئیں، پھر کنکر کے پتھروں کا مینہ برسا، جس کا ذکر قرآنِ پاک میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان:”اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا، مجرموں کا۔“(پ8،الاعراف: 84) اس زور سے سنگ باری ہوئی کہ قومِ لوط کے تمام لوگ مرگئے اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئیں، عین اس وقت جب کہ یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام”واعلہ“تھا، جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور کہا: ہائے رے میری قوم! یہ کہہ کر کھڑی ہوگئی، پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ بھی ہلاک ہوگئی، چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری ہے:ترجمۂ کنزالایمان:”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی، مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی۔“(پ8، الاعراف:83)

لواطت کی مذمت

معلوم ہوا !اغلام بازی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی ایجاد ہے، اسی لئے اسے”لواطت“ کہتے ہیں،یہ بھی معلوم ہوا!لڑکوں سے بدفعلی حرامِ قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔(تفسیرصراط الجنان، 3/ 362)منقول ہے:حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ ابلیس لعین سے پوچھا:اللہ پاک کو سب بڑھ کر کون سا گناہ نا پسند ہے؟ تو ابلیس نے کہا:سب سے زیادہ اللہ پاک کو یہ گناہ نا پسند ہے کہ مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے اپنی خواہش پوری کرے۔(عجائب القرآن، ص113)


اللہ کریم نے قرآنِ پاک  میں جن موضوعات کو بیان فرمایا ہے،ان میں سے ایک گزشتہ اُمّتوں کے واقعات بھی ہیں،ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان قوموں کے انجام سے عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ کریم کی نافرمانی کرنے سے باز آ جائیں، انہی قوموں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی بھی ہے۔

تعارف

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں،حضرت لوط علیہ السلام اُردن میں اُترے،اللہ کریم نے آپ کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث کیا، آپ علیہ السلام ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بد سے روکتے تھے۔(تفسیر صراط الجنان، 3/ 362)

قوم ِلوط کی نافرمانیاں

قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت ”لواطت“ یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا، اسی پر حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئےجو بیان فرمایا، اس کو پارہ 8، سورۃ الاعراف، آیت نمبر 80 اور 81 میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی، تم تو مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔

قومِ لوط پر لرزہ خیز عذاب

جب قومِ لوط کی سرکشی اور خصلتِ بدفعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا،چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حسن و جمال اور قوم کی بد کاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام فکر مند ہوئے، تھوڑی دیر بعد قوم کے بد فعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکانِ عالیشان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے بُرے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے،حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دلسوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بد ارادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو متفکر اور رنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:یا نبی اللہ!آپ غمگین نہ ہوں،ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں، آپ مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دور نکل جائیے اور خبردار! کوئی شخص پیچھے مڑ کر بستی کی طرف نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا، چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنوں کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جا کر اُن بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا، پھر ان پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کے بھی پرخچے اڑ گئے۔بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا،جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔( عجائب القرآن، ص110تا112 مخلصاً وماخوذاً) حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا ان کے مہمانوں کی بے حرمتی کرنے کا قصد(ارادہ) کرنے اور ان کی بستیوں کو اُلٹ دیئے جانے اور ان پر پتھروں کی بارش ہونے میں غور کر کے عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ بدکاری تمام جُرموں میں سب سے بڑا جرم ہے کہ اس جرم کی وجہ سے قومِ لوط پر ایسا عذاب آیا، جو دوسری عذاب پانے والی قوموں پر نہ آیا۔اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں اپنی نافرمانی سے محفوظ فرمائے اور قومِ لوط کے عبرت ناک انجام سے عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اللہ پاک کی شانِ کریمی ہے کہ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا نہیں فرماتا،  جب تک اپنے رسولوں کو بھیج کر ان تک اپنے احکامات نہ پہنچا دے،لیکن ان احکامات کو سننے کے بعد بھی جو قومیں اپنی نافرمانیوں سے باز نہیں آتیں، اُن کو رہتی دنیا تک کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے، انہی قوموں میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام کی قوم بھی ہے۔حضرت لوط علیہ السلام کو اہلِ سُدوم کی طرف بھیجا گیا،تا کہ انہیں دینِ حق کی طرف بلائیں، اس قوم کی بستیاں نہایت سرسبز و شاداب تھیں،وہاں ہر طرح کے اناج،پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے، لیکن یہ قوم انتہائی بدترین گناہوں اور نہایت قبیح حرکات و افعال میں مبتلا رہتی تھی، ذیل میں قومِ لوط کی چند ایسی نافرمانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے،جن میں سے بیشتر نے آج عالِم کُفر کے ساتھ ساتھ دنیائے اِسلام کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے:

1۔مسافروں کی حق تلفی کرنا، ان پر ظلم و ستم کرنا، ان کا مال لوٹ لینا، ان سے بھتہ وصول کرنا۔ 2۔صدقہ نہ دینا، 3۔کبوتر بازی کرنا۔

4۔ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا، 5۔بات بات پر گالیاں دینا۔

6۔سیٹیاں اور تالیاں بجانا، 7۔چغل خوری کرنا، 8۔مونچھیں بڑی رکھنا اور داڑھیاں ترشوانا، 9۔شراب پینا، 10۔گانے باجے کے آلات بجا نا، 11۔مجلسوں میں فُحش باتیں کرنا، 12۔مَردوں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بد فعلی کرنا۔

13۔اعلانیہ بدفعلی کرنا، 14۔بیویوں کے ساتھ بدفعلی کرنا۔

15۔خوبصورت لڑکوں کو شہوت کے ساتھ دیکھنا، ان سے ہاتھ ملانا، بدفعلی کرنا۔(سیرت الانبیاء، مطبوعہ مکتبہ المدینہ، ص 377،378)

غور کیجئے!کیا یہ نافرمانیاں آج ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جارہیں؟ آئیے! قرآنِ کریم کی زبانی یہ بھی سُن لیجئےکہ قومِ لوط کا انجام کیا ہوا اور خود کو اس عبرتناک انجام سے ڈرائیے۔اللہ پاک پارہ 14، سورۃ الحجر، آیت نمبر 73، 74 میں فرماتا ہے:ترجمہ:تو دن نکلتے ہی انہیں زور دار چیخ نے آ پکڑا تو ہم نے اس بستی کا اُوپر کا حصّہ اس کے نیچے کا حصّہ کر دیا اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے۔


اصلاح انسانیت کیلئے بھیجے گئے انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ایک سیدنا لوط علیہ السلام بھی ہیں جو کہ "اہل سدوم" کی طرف رسول بن کر تشریف لائے ۔ اہل سدوم(قوم لوط) لواطت (لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنے) جیسے بدترین فعل میں مبتلا تھی ۔

آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس حرام کام سے ان الفاظ میں روکا :کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔ تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر ، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔( الاعراف آیۃ 80-81)

اس تبلیغ پر قوم لوط نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جواب دیا:ان کو اپنی بستی سے نکال دو ، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں(الاعراف : 82 )

قوم لوط بدستور اسی حرام کام میں مبتلا رہی یہاں تک کہ ایک دن حضرت جبریل علیہ السلام دیگر فرشتوں کے ساتھ خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آتے ہیں۔ اور آپ کو اس بات کی خبر دیتے ہیں ہم قوم لوط کو عذاب دینے کیلئے آئے ہیں ۔

اُدھر قوم نے جب یہ خبر سنی تو ناپاک ارادے سے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی آئی۔حضرت لوط علیہ السلام نے جب قوم کی اس حرکت کو دیکھا تو بہت زیادہ غمگین ہوئے اور قوم سے فرمایا :یہ میرے مہمان ہیں مجھے رُسوا نہ کرو(الحجر آیۃ 68) تو قوم نے کہا :کیا ہم نے تمہیں منع نہ کیا تھا کہ اوروں کے معاملہ میں دخل نہ دو(الحجر آیۃ 70)

تو فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے عرض کی: اے لوط(علیہ السلام) ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں وہ تم تک نہیں پہنچ سکتے تو اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جاؤ اور تم میں سے کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے ۔(ھود آیت: 81)

چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے اہل و عیال کو لے کر شہر سے نکل گئے، اُدھر عین صبح کے وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام نے شہر کے نیچے اپنا بازو ڈالا اور سدوم سمیت پانچوں شہروں کو اتنا اونچا اٹھایا کہ ان کے مرغوں اور کتوں کی آوازیں اہل آسمان نے سنیں اور یہ اٹھانا اس قدر آہستگی سے تھا کہ کسی برتن میں موجود پانی نہ گرا اور نہ کوئی سویا ہوا شخص بیدار ہوا، اور پھر اتنی اونچائی سے جبریل امین علیہ السلام نے شہر اوندھا کر کے پلٹ دیا جس سے پورا شہر لوگوں سمیت تباہ و برباد ہوگیا اور جو اس وقت بستی میں نہ تھے وُہ جہاں کہیں سفر میں تھے وہیں ان پر پتھر برسا کر انہیں ہلاک کیا گیا ۔(تفسیر صراط الجنان سورۃ ھود آیۃ 82 ملخصا و ملتقطا)

یوں یہ قوم اس قدر خوفناک عذاب کے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی۔


قرآنِ مجید میں قوم لوط  کا ذکر سترہ (17) مرتبہ آیا ہے،قومِ لوط کا مسکن شہر سدوم اور عمورہ تھا  جو بحر مردار کے ساحل پر واقع تھا، اورقریش  مکہ اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے۔یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اورضُغر تھے، ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات (یعنی الٹی ہوئی بستیاں) کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔

  جب حضرت لوط علیہ السلام  اردن  میں بحیرہ لوط  کے پاس جہاں سدوم اور عامورہ کی بستیاں تھیں  وہاں آکر رہائش پذیر ہوئے۔ تو  اللہ تعالیٰ نے  انہیں اہلِ سدوم کی ہدایت کے لیے نبی مبعوث فرمایا، یہاں کے باشندے فواحش اور  بہت سے گناہوں میں مبتلا تھے، دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں تھی جو ان میں موجود نہ ہو ، یہ دنیا کی سرکش، متمرد اور بداخلاق قوم تھی، ان سب  برائیوں کے ساتھ ساتھ یہ قوم ایک خبیث عمل کی موجد بھی تھی، وہ یہ کہ  وہ  اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے کے لیے عورتوں کے بجائے لڑکوں سے اختلاط رکھتے تھے، دنیا کی قوموں میں اس عمل کا اب تک کوئی رواج نہ تھا ، یہی وہ بدبخت قوم تھی جس نے  اس ناپاک عمل کو شروع کیا تھا، اور اس سے بھی زیادہ بے حیائی یہ تھی کہ وہ  اپنی اس بدکرداری کو عیب نہیں سمجھتے تھے، بلکہ کھلم کھلا فخر کے ساتھ اس کو کرتے رہتے تھے۔

ان حالات میں  حضرت  لوط علیہ السلام نے اس قوم کو  ان کی بے حیائیوں  اور برائیوں پر ملامت کی اور شرافت وطہارت کی زندگی کی رغبت دلائی،  اور  ہر ممکن طریقے سے نرمی اور پیار سے انہیں سمجھایا اور نصیحتیں کیں ، اور  پچھلی قوموں کی بداعمالیوں کے نتائج  اور  ان پر آئے ہوئے عذابات بتاکر عبرت دلائی، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ الٹا   طنز کرتے ہوئے یہ کہنے لگے: " یہ بڑے  پاک باز لوگ ہیں، ان کو اپنی بستی سے نکال دو" اور بارہا  سمجھانے کے بعد یہ کہنے لگے: "ہم تو نہیں مانتے ، اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ"،  ادھر یہ ہورہا تھا  اور دوسری جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ کے فرشتے انسانی شکل میں  آئے ،  ابراہیم علیہ السلام نے انہیں مہمان سمجھ کر ان کی تواضع  کرنی چاہی لیکن انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا، یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ کوئی دشمن ہے جو حسبِ دستور کھانے سے انکار کررہا ہے، اور پریشان سے ہوگئے،  تو مہمانوں نے کہا:

آپ  گھبرائیں نہیں، ہم اللہ کے فرشتے ہیں، آپ کے لیے بیٹے کی بشارت لائے ہیں اور قومِ لوط کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: تم ایسی قوم کو ہلاک کرنے جارہے ہو جس میں لوط علیہ السلام جیسا خدا کا برگزیدہ نبی موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہمیں معلوم ہے، لیکن اللہ کا یہی فیصلہ ہے کہ قومِ لوط اپنی  بے حیائی اور فواحش پر اصرار کی وجہ سے ضرور ہلاک ہوگی، اور لوط (علیہ السلام) اور ان کا خاندان  اس عذاب سے محفوط رہے گا، سوائے لوط  (علیہ السلام) کی بیوی کے وہ  قوم کی حمایت اور ان کی بداعمالیوں میں شرکت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگی۔

 فرشتے حضرت ابراہیم  علیہ السلام کے پاس  سے روانہ ہوکر  سدوم پہنچے ، اور  لوط علیہ السلام کے یہاں مہمان  ہوئے، اور یہاں یہ  فرشتے خوب صورت اور نوجوان لڑکوں کی شکل میں  تھے، لوط  علیہ السلام نے  ان کو دیکھا  تو بہت پریشان ہوئے کہ اب نہ جانے قوم ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی،  ابھی  وہ اسی پریشانی میں تھے کہ قوم  کو خبر ہوگئی اور وہ لوط علیہ السلام کے  مکان پر چڑھ گئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ ان کو ہمارے حوالہ کردو، لوط  (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ  نہ مانے، تو انہوں سخت پریشانی میں کہا:  "کاش میں کسی مضبوط سہارے کی حمایت حاصل کرسکتا" !!

            فرشتوں نے ان کو پریشان دیکھ کر کہا کہ  آپ گھبرائیں نہیں ، ہم انسان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، اور ان کے عذاب کے لیے نازل ہوئے ہیں ، آپ راتوں رات  اپنے خاندان سمیت یہاں سے نکل جائیں ، تو فرشتوں کے پیغام کے بعد لوط  علیہ السلام  اپنے خاندان سمیت بستی سے نکل کر سدوم سے رخصت ہوگئے اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکارکردیا اور یہیں رہ گئی،  جب رات کا آخری پہر ہوا تو عذاب شروع ہوگیا، سب سے پہلے ایک سخت ہیبت ناک چینخ  نے ان کو تہہ وبالاکردیا،  پھر ان کی آبادی کو اوپر  اٹھا کر  زمین کی طرف الٹ دیا گیا، اور پھر اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام ونشان مٹادیا، اور گزشتہ قوموں کی طرح یہ بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے انجام کو پہنچے۔


حضرت سیدناابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آخرزمانےمیں کچھ لوگ لوطیہ کہلا ئیں گے اور یہ تین طرح کے ہوں گے: 1۔وہ جوشہوت کےساتھ صرف امردوں کی صورتیں دیکھیں گے اور باوجود شہوت ان سےبات چیت کریں گے۔ 2۔جوان کے ساتھ بدفعلی کریں گےان سب پراللہ عزوجل کی لعنت ہے مگر وہ جوتوبہ کرلینگے تواللہ پاک ان کی توبہ قبول فرمالےگا اور وہ لعنت سےبچے رہیں گے۔ (الفردوس بماثورالخطاب ج 2ص310 حدیث 3452)

حضرسیدناعیسیٰ روح اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نےایک بارجنگل میں دیکھاکہ ایک مرد پرآگ جل رہی ہے آپ علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام نے پانی لےکرآگ بجھانی چاہی توآگ نےامردکی صورت اختیارکرلی آپ علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام نےاللہ کی بارگاہ میں عرض کی یااللہ ان دونوں کو اپنی اصل حالت پر لوٹادے تاکہ میں ان سےان کا گناہ پوچھوں چنانچہ مرداور امرد آگ سے باہرآگئے مردکہنےلگایاروح اللہ میں نےاس امردسے دوستی کی تھی افسوس شہوت سےمغلوب ہوکرمیں نے شب جمعہ اس سےبدفعلی کی دوسرےدن بھی کالامنہ کیا ایک ناصح یعنی نصیحت کرنےوالےنے خداعزوجل کا خوف دلایا مگرمیں نہ مانا پھرہم دونوں مرگئے اب باری باری آگ بن کر ایک دوسرے کوجلاتے ہیں اورہمارا یہ عذاب قیامت تک ہے ۔العیاذ باللہ تعالی یعنی آللہ تعالی کی پناہ ۔(نزھۃ المجالس ج2 ص52)

حضرت سیدنا وکیع رضی اللہ عنہ سےمروی ہے جوشخص قوم لوط کا ساعمل (یعنی بدفعلی)کرتا ہوگا اور بغیر توبہ مرےگا توتدفین کے بعد اسے قوم لوط کے قبرستان میں منتقل کردیا جائے گا اور اس کاحشر قوم لوط کے ساتھ ہوگا۔ (یعنی قوم لوط کے ساتھ قیامت میں اٹھے گا )۔

(ابن عساکر ج 45ص406)