اللہ پاک کی شانِ کریمی ہے کہ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا نہیں فرماتا،  جب تک اپنے رسولوں کو بھیج کر ان تک اپنے احکامات نہ پہنچا دے،لیکن ان احکامات کو سننے کے بعد بھی جو قومیں اپنی نافرمانیوں سے باز نہیں آتیں، اُن کو رہتی دنیا تک کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے، انہی قوموں میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام کی قوم بھی ہے۔حضرت لوط علیہ السلام کو اہلِ سُدوم کی طرف بھیجا گیا،تا کہ انہیں دینِ حق کی طرف بلائیں، اس قوم کی بستیاں نہایت سرسبز و شاداب تھیں،وہاں ہر طرح کے اناج،پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے، لیکن یہ قوم انتہائی بدترین گناہوں اور نہایت قبیح حرکات و افعال میں مبتلا رہتی تھی، ذیل میں قومِ لوط کی چند ایسی نافرمانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے،جن میں سے بیشتر نے آج عالِم کُفر کے ساتھ ساتھ دنیائے اِسلام کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے:

1۔مسافروں کی حق تلفی کرنا، ان پر ظلم و ستم کرنا، ان کا مال لوٹ لینا، ان سے بھتہ وصول کرنا۔ 2۔صدقہ نہ دینا، 3۔کبوتر بازی کرنا۔

4۔ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا، 5۔بات بات پر گالیاں دینا۔

6۔سیٹیاں اور تالیاں بجانا، 7۔چغل خوری کرنا، 8۔مونچھیں بڑی رکھنا اور داڑھیاں ترشوانا، 9۔شراب پینا، 10۔گانے باجے کے آلات بجا نا، 11۔مجلسوں میں فُحش باتیں کرنا، 12۔مَردوں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بد فعلی کرنا۔

13۔اعلانیہ بدفعلی کرنا، 14۔بیویوں کے ساتھ بدفعلی کرنا۔

15۔خوبصورت لڑکوں کو شہوت کے ساتھ دیکھنا، ان سے ہاتھ ملانا، بدفعلی کرنا۔(سیرت الانبیاء، مطبوعہ مکتبہ المدینہ، ص 377،378)

غور کیجئے!کیا یہ نافرمانیاں آج ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جارہیں؟ آئیے! قرآنِ کریم کی زبانی یہ بھی سُن لیجئےکہ قومِ لوط کا انجام کیا ہوا اور خود کو اس عبرتناک انجام سے ڈرائیے۔اللہ پاک پارہ 14، سورۃ الحجر، آیت نمبر 73، 74 میں فرماتا ہے:ترجمہ:تو دن نکلتے ہی انہیں زور دار چیخ نے آ پکڑا تو ہم نے اس بستی کا اُوپر کا حصّہ اس کے نیچے کا حصّہ کر دیا اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے۔