اللہ کریم نے قرآنِ پاک  میں جن موضوعات کو بیان فرمایا ہے،ان میں سے ایک گزشتہ اُمّتوں کے واقعات بھی ہیں،ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان قوموں کے انجام سے عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ کریم کی نافرمانی کرنے سے باز آ جائیں، انہی قوموں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی بھی ہے۔

تعارف

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں،حضرت لوط علیہ السلام اُردن میں اُترے،اللہ کریم نے آپ کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث کیا، آپ علیہ السلام ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بد سے روکتے تھے۔(تفسیر صراط الجنان، 3/ 362)

قوم ِلوط کی نافرمانیاں

قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت ”لواطت“ یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا، اسی پر حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئےجو بیان فرمایا، اس کو پارہ 8، سورۃ الاعراف، آیت نمبر 80 اور 81 میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی، تم تو مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔

قومِ لوط پر لرزہ خیز عذاب

جب قومِ لوط کی سرکشی اور خصلتِ بدفعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا،چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حسن و جمال اور قوم کی بد کاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام فکر مند ہوئے، تھوڑی دیر بعد قوم کے بد فعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکانِ عالیشان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے بُرے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے،حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دلسوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بد ارادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو متفکر اور رنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:یا نبی اللہ!آپ غمگین نہ ہوں،ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں، آپ مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دور نکل جائیے اور خبردار! کوئی شخص پیچھے مڑ کر بستی کی طرف نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا، چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنوں کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جا کر اُن بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا، پھر ان پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کے بھی پرخچے اڑ گئے۔بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا،جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔( عجائب القرآن، ص110تا112 مخلصاً وماخوذاً) حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا ان کے مہمانوں کی بے حرمتی کرنے کا قصد(ارادہ) کرنے اور ان کی بستیوں کو اُلٹ دیئے جانے اور ان پر پتھروں کی بارش ہونے میں غور کر کے عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ بدکاری تمام جُرموں میں سب سے بڑا جرم ہے کہ اس جرم کی وجہ سے قومِ لوط پر ایسا عذاب آیا، جو دوسری عذاب پانے والی قوموں پر نہ آیا۔اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں اپنی نافرمانی سے محفوظ فرمائے اور قومِ لوط کے عبرت ناک انجام سے عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین