حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلام اُردن میں اُترے تواللہ پاک نے آپ کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث فرمایا۔آپ علیہ السلام ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بد سے روکتے تھے۔قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت”لواطت“یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا، اس پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:ترجمۂ کنز الایمان:کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو،جو سارے جہاں میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کے لئے مَردوں کے پاس جاتے ہو،یقیناً تم حد سے گزر چکے ہو۔ (تفسیر صراط الجنان، پ 8،الاعراف، الآیۃ: 80- 81 ماخوذ اً)

قومِ لوط اس خبیث جُرم کا شکار اس طرح ہوئی کہ ابلیسِ لعین حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا،یہاں تک کہ گندہ کام کروانے میں کامیاب ہوگیا،اس کااُن کو ایسا چسکا لگا کہ وہ اس بُرے کام کے عادی ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔

(مکاشفۃ القلوب، ص 76 ماخوذ اً)

حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو سمجھایا اور منع کیا،لیکن آپ کی بد بخت قوم نے دنیا و آخرت کی بھلائی پر مشتمل بیانِ عافیت نشان کو سُن کر بجائے سر تسلیمِ خم کرنے کے جو بے حیائی کے ساتھ جواب دیا، اس کے بارے میں قرآنِ پاک میں مذکور ہے:

ترجمۂ کنز الایمان: اور اس قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔

(تفسیر صراط الجنان، پ 8،الاعراف،الآیۃ: 82 ماخوذ اً)

جب قومِ لوط کی سرکشی اور خصلتِ بدفعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند ملائکہ کے ہمراہ اَمردِ حسین کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام نہایت فکرمند ہوئے،تھوڑی دیر بعد قوم کے بد فعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکانِ عالیشان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے بُرے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے، حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بَد اِرادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو متفکرو رنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نےکہا:یا نبیَّ اللہ!آپ غمزدہ نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں، آپ مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دُور نکل جائیے اور خبردار! کوئی شخص پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پَروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا، پھران پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کےبھی پَرخچے اُڑ گئے، عین اس وقت جب کہ یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام ”واعلہ“تھا، جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور اُس کے مُنہ سے نکلا:ہائے رے میری قوم!یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی، پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ ہلاک ہوگئی، ارشادِ باری ہے:ترجمۂ کنز الایمان:”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی، مگر اس کی عورت، وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔“بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا تھا، جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔(عجائب القرآن، ص110 تا 112، تفسیر صاوی،2/691 ماخوذ اً)

مذکورہ آیات و واقعات سے معلوم ہوا !اغلام بازی یعنی لواطت قومِ لوط کی ایجاد ہے،یہ بھی معلوم ہوا!لڑکوں سے بد فعلی حرامِ قطعی ہے، اس کا منکر کافر ہے،نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی احادیث اور بزرگانِ دین کے آثار میں لواطت کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے تم پر قومِ لوط والے عمل کا سب سے زیادہ خوف ہے۔( ابنِ ماجہ، کتاب الحدود، باب من عمل عمل قومِ لوط،3/230، حدیث: 2563 ماخوذ اً)حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:لَعَنَ اللہُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ یعنی اس شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہو جو قومِ لوط والا عمل کرے۔(سنن کبری للنسائی، ابواب التغیرات والشہود، حدیث: 7337) معلوم ہوا! عورتوں کا عورتوں سے بدفعلی کرنا اور مَردوں کا مَردوں سے خاص انداز سے ملنا یعنی بد فعلی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے،نیز جو قومِ لوط کا سا عمل کرے اسے حدیثِ مبارَکہ میں ملعون کہا گیا ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام گھناؤنے جُرموں سے بچنے اور خوفِ خدا کو دل میں بسائے رکھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین(تفسیر صراط الجنان،پ8، الاعراف، الآیۃ:80 تا81)