اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے بے شمار انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے، ان میں سے ایک پیارے نبی حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں،حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے نبی بنائے گئے۔(نورالعرفان، ص 200)اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو سدوم کا نبی بنا کر بھیجا،سدوم شہر کی بستیاں نہایت سرسبزو شاداب تھیں، وہاں طرح طرح کے اناج اور قسم قسم کے میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے، اس خوشحالی کی وجہ سے اکثر لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آیا کرتے تھے اور شہر کے لوگوں کو ان کی مہمان نوازی کا بار اُٹھانا پڑتا تھا،جس کی وجہ سے شہر کے لوگ تنگ ہو چکے تھے، انہیں اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی، ایسے میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا اور مشورہ دیا کہ اگر ان سے نجات چاہتے ہو تو جب یہ مہمان آئیں تو تم زبردستی ان کے ساتھ بدفعلی کرو۔چنانچہ سب سے پہلے شیطان خود ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں بستی میں داخل ہوا اور ان سے خوب بد فعلی کروائی، اس طرح یہ فعلِ بد اُن لوگوں نے شیطان سے سیکھا اور پھر ان لوگوں کو اس کام کا ایسا چسکا لگا کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے فرمایا،جس کا ذکر قرآنِ مجید میں ان الفاظ سے کیا گیا ہے،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو،جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تو تم مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔(پ 8،الاعراف: 80-81)یہ فرمانِ عافیت نشان سُن کر قوم نے بے حیائی اور بے باکی کے ساتھ جواب دیا:ترجمۂ کنزالایمان:اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ 8، الاعراف:82)قوم کی سرکشی اور نافرمانی حد سے بڑھ گئی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ خوبصورت لڑکوں کی شکل میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے،مہمانوں کے حسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام فکرمند ہوئے، تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا:یا نبی اللہ!آپ غمگین نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں،آپ اپنے اہل و عیال اور مؤمنین کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے اس بستی سے نکل جائیے اور خبردار!کوئی شخص پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے،ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا،چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام گھر والوں اور مؤمنوں کو ساتھ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اُس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور اُوپر جا کر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا، پھر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کے پرخچے اُڑ گئے،عین اس وقت جب یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی ”واعلہ“ جو منافقہ تھی،قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی،اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور اس کے مُنہ سے نکلا:ہائے رے میری قوم!یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی اور پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس پر بھی آ گرا اور وہ بھی ہلاک ہوگئی۔پارہ 8، سورۃ الاعراف آیت نمبر 83 اور 84 میں ربّ کریم کا ارشاد ہے:ترجمہ ٔکنزالایمان:”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی،مگراس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں سے ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا، مجرموں کا۔“بدکار پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا، جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔(عجائب القرآن، ص 110 تا112، تفسیر صاوی، 2/ 691)

اے عذاب سہنے کی طاقت نہ رکھنے والو!اگر کبھی کسی اَمرد کو شہوت کے ساتھ دیکھ کر لواطت کا خیال بھی دل سے گزرا ہے تو ربّ کریم کی بارگاہ میں توبہ کر لیجئے، بے شک ربّ کریم معاف فرمانے والا ہے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر ظاہری و باطنی گناہ سے بالخصوص لواطت جیسے غلیظ گناہ سے محفوظ فرمائے۔آمین

عطار ہے ایمان کی حفاظت کا سوالی خالی نہیں جائے گا یہ دربارِ نبی سے

(وسائل بخشش، ص 17)