دُرود شریف
کی فضیلت
خلق کے
رہبر، شافعِ محشر، محبوبِ ربِّ داور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفرت
نشان ہے:جس نے کتاب میں مجھ پر دُرودِ پاک
لکھا، تو جب تک میرا نام اس میں رہے گا، فرشتے اُس کے لئے استغفار کرتے رہیں گے۔(معجم اوسط، 1/497، فیضانِ سنت، ص388)
مختصر
تعارف
حضرت لوط علیہ
السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، جب
آپ کے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شام کی طرف
ہجرت کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ
فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلام اُردن میں اُترے،اللہ پاک نے آپ کو اہلِ سدوم کی
طرف مبعوث فرمایا، آپ ان لوگوں کو دینِ حق
کی دعوت دیتے تھے اور انہیں فعلِ بد سے روکتے تھے۔(تفسیر صراط الجنان، 3/ 362) ترجمۂ کنزالایمان: اور لوط کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا:کیا وہ بے حیائی کرتے
ہو، جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔(اعراف، الآیۃ: 80) حضرت لوط علیہ السلام نے ان
لوگوں کو فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے اس طرح وعظ فرمایا: ترجمۂ کنزالایمان:” اپنی قوم سے کہا کیا وہ
بے حیائی کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہان میں
کسی نے نہ کی، تم تو مَردوں کے پاس شہوت
سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔“(الاعراف، الآیۃ: 80/81) حضرت لوط علیہ السلام کے اس
اصلاحی اور مصلحانہ وعظ کو سن کر ان کی قوم نے نہایت بے باکی اور انتہائی بے حیائی
کے ساتھ جو کہا اسے قرآنِ پاک کی زبان سے سنئے:ترجمۂ
کنزالایمان:”اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔“(الاعراف:82) جب قومِ لوط کی سرکشی اور بد فعلی قابلِ
ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا،چنانچہ حضرت جبرئیل علیہ السلام چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر آسمان سے
اُتر پڑے، پھر یہ فرشتے مہمان بن کر حضرت
لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور یہ فرشتے بہت ہی حسین اور خوبصورت لڑکوں کی
شکل میں تھے، ان مہمانوں کے حسن و جمال کو
دیکھ کر اور قوم کی بدکاری کا خیال کر کے حضرت لوط علیہ السلام بہت فکرمند ہوئے، تھوڑی دیر بعد قوم
کے بد فعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادے سے دیوار پر
چڑھنے لگے، حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا اور بُرے کام سے منع کرنا شروع کر دیا، مگروہ فعلِ بد اور سرکش قوم اپنے بےہودہ جواب
اور بُرے اقدام سے باز نہ آئی تو آپ اپنی تنہائی اور مہمانوں کے سامنے رسوائی سے
تنگ دل ہو کر غمگین و رنجیدہ ہوگئے، یہ منظر دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا:اے اللہ پاک کے نبی!آپ بالکل کوئی فکر نہ کریں، ہم لوگ اللہ پاک کے
بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، جو ان بدکاروں پر
عذاب لے کر اُترے ہیں، لہٰذا مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے
قبل ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار !کوئی شخص پیچھے مڑ کر اس بستی کی طرف
نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو
جائے گا،چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر
والوں اور مؤمنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر نکل گئے،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پَروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے
اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو اُلٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چور
ہو کر زمین پر بکھر گئیں، پھر کنکر کے
پتھروں کا مینہ برسا، جس کا ذکر قرآنِ پاک
میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان:”اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام
ہوا، مجرموں کا۔“(پ8،الاعراف: 84) اس زور سے سنگ باری
ہوئی کہ قومِ لوط کے تمام لوگ مرگئے اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئیں،
عین اس وقت جب کہ یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام”واعلہ“تھا، جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں
سے محبت رکھتی تھی، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ
لیا اور کہا: ہائے رے میری قوم! یہ کہہ کر کھڑی ہوگئی، پھر عذابِ الٰہی کا ایک
پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ بھی ہلاک ہوگئی، چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری ہے:ترجمۂ
کنزالایمان:”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی، مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی۔“(پ8، الاعراف:83)
لواطت کی مذمت
معلوم ہوا !اغلام بازی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی
ایجاد ہے، اسی لئے اسے”لواطت“ کہتے ہیں،یہ
بھی معلوم ہوا!لڑکوں سے بدفعلی حرامِ قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔(تفسیرصراط الجنان، 3/ 362)منقول ہے:حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ ابلیس لعین سے پوچھا:اللہ پاک کو سب بڑھ کر کون سا گناہ نا پسند
ہے؟ تو ابلیس نے کہا:سب سے زیادہ اللہ پاک کو یہ گناہ نا پسند ہے کہ مرد مرد سے
بدفعلی کرے اور عورت عورت سے اپنی خواہش پوری کرے۔(عجائب القرآن، ص113)