اللہ کریم نے انسانوں کی ہدایت کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے،انہی میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں،اللہ کریم نے حضرت لوط علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا،جو لواطت جیسے غلیظ و گھناؤنے فعل میں ملوث تھے،پھر اُن لوگوں کے ہدایت قبول نہ کرنے پر آپ علیہ السلام کو اس بستی سے نجات عطا فرمائی،ربّ کریم فرماتا ہے: ترجمہ:اور اسے اس بستی سے نجات بخشی، جو گندے کام کرتی تھی، بے شک وہ بُرے لوگ نافرمان تھے۔(سورۂ انبیاء)

قوم کے بُرے اعمال

حضرت لوط علیہ السلام جس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، وہ وقت کے بد ترین گناہوں، بُری عادات اور قابلِ نفرت افعال میں مبتلا تھی، اعمال و افعال کی فہرست ملاحظہ ہو:٭کفر و شرک کرنا، ٭ حضرت لوط علیہ السلام کی تکذیب، ٭ واجب حقوق کی ادائیگی میں بخل کرنا، ٭صدقہ نہ دینا، ٭مسافروں کی حق تلفی، ٭مسافروں پر ظلم و ستم کرنا، ٭ان کا مال لوٹ لینا، ٭ان سے زبردستی بدفعلی کرنا،٭راہ گیروں کو کنکریاں مارنا، ٭کبوتر بازی کرنا، ٭ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا، ٭بات بات پر گالی دینا، ٭تالیاں اور سیٹیاں بجانا،٭چغل خوری کرنا،٭ریشمی لباس پہننا،٭گانے باجے کے آلات بجانا،٭شراب پینا،٭مجلسوں میں فحش باتیں کرنا۔

توجہ:مذکورہ بالا اعمال کی فہرست کو سامنے رکھتے ہوئے ہم عالمی سطح پر لوگوں کے حالات کا جائزہ لیں تو قومِ لوط کے اعمال میں سے شاید ہی کوئی ایسا عمل ہو، جو فی زمانہ لوگوں میں نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس سے بہت زیادہ گندے اعمال میں زیادہ شدّت کے ساتھ مبتلا نظر آتے ہیں اور انتہائی افسوس! موجودہ دور میں مسلمانوں کی ایک تعداد بھی ان اعمال میں مبتلا نظر آتی ہے،اللہ پاک انہیں ہدایت عطا فرمائے۔آمین۔(سیرت الانبیاء، ص377 تا378