دنیا میں سب سے پہلے بدفعلی شیطان نے کروائی، وہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا،ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا کہ گندہ کام کروانے میں کامیاب ہو گیا، لوگ اس بُرے کام کے عادی ہو گئے، اس طرح کے وہ عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس بُرے کام سے منع کرتے ہوئے جو فرمایا وہ قرآنِ کریم میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو،جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تو تم مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو،عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔(پ8، الاعراف: 80- 81)حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے یہ سن کر ان کا کہنا سننے کی بجائے جو جواب دیا اس کا ذکر قرآنِ کریم میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ8، الاعراف: 82)اس سے معلوم ہوا !اغلام بازی یعنی بدفعلی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی ایجاد ہے،اسے ”لواطت“کہتے ہیں، یہ بھی معلوم ہوا!لڑکوں سے بدفعلی کرنا حرامِ قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا:اس شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہو، جو قومِ لوط والا عمل کرے۔

قومِ لوط پر عذاب

جب قومِ لوط کی سرکشی اور بد فعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو ان پر اللہ پاک کا عذاب آگیا،حضرت جبرائیل علیہ السلام کچھ فرشتوں کے ساتھ خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حسن و جمال اور اپنی قوم کی بد فعلی کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام فکر مند ہوئے، کچھ دیر بعد ان کی قوم کے بد فعلوں نے ان کے گھر کو گھیر لیا اور مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے،حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو سمجھایا، مگر وہ باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو دُکھی دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:آپ فکر نہ کریں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں، آپ اپنے اہل و عیال اور مؤمنین کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے اس بستی سے نکل جائیں اور کوئی شخص پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے،ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا، چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام نے ایسا ہی کیا، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اُس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئےاور اُن بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا،پھر ان پر پتھروں کا مینہ برسااور ان کی لاشوں کے پرخچے اُڑ گئے۔ جب یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی ”واعلہ“ جو منافقہ تھی، قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور کہا: ہائے رے میری قوم! اس پر اللہ پاک کے عذاب کا پتھر گرا اور وہ بھی ہلاک ہوگئی، بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا، جواس پتھر سے ہلاک ہوا۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے ناپسندیدہ گناہ

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ شیطان سے پوچھا: اللہ پاک کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ ناپسند ہے؟ ابلیس بولا: جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے۔(تفسیرروح البیان، 3/ 197)

اَمرد بھی جہنم کا حق دار!

اَمرد سے دوستیاں کرنے والے شیطان کے وار سے خبردار رہیں، اگر اَمرد رَضامندی سے یا پیسوں یا نوکری وغیرہ کے لالچ میں بدفعلی کروائے گا تو وہ بھی گنہگار اور جہنم کا حق دار ہے۔حضرت وکیع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:جو شخص قومِ لوط کی طرح بد فعلی کرے گا اور توبہ کئے بغیر مرے گا،تو تد فین کے بعد اسے قومِ لوط کے قبرستان میں منتقل کر دیا جائے گا اور اس کا حشر قومِ لوط کے ساتھ ہوگا۔(تاریخ ابنِ عساکر، 45/ 406)

لواطت کاعمل عقلی اور طبّی دونوں اعتبار سے انتہائی خبیث ہے،عقلی اعتبار سے اس طرح کہ یہ عمل فطرت کے خلاف ہے۔ لواطت کرنے والا اپنی فطرت کے خلاف چل رہا ہے اور فطرت کے خلاف چلنا عقلی اعتبار سے انتہائی قبیح ہے۔دوسری خباثت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے نسلِ انسانی میں اضافہ رُک جاتا ہے۔تیسری خباثت یہ ہے کہ اس عمل کی وجہ سے انسانیت ختم ہو جاتی ہے۔ چوتھی خباثت یہ ہے کہ لواطت کا عمل ذلت ورُسوائی اور آپس میں عداوت و نفرت پیدا ہونے کا ایک سبب ہے،نیزعقلِ سلیم رکھنے والے کے نزدیک وہ عمل ضرورخبیث ہے جو ذلت و رسوائی اور نفرت پیدا ہونے کا سبب بنے۔یہ بدکاری تمام جُرموں سے بڑا جرم ہے، اس جُرم کی وجہ سے قومِ لوط پر عذاب آیا جو دوسری عذاب پانے والی قوموں پر نہ آیا۔

چھپ کے لوگوں سے کئے جس سے گناہ وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے

کام زِنداں کے کئے اور ہمیں شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے

ارے او مجرم و بے پرواہ! دیکھ سرپہ تلوار ہے کیا ہونا ہے

ان کو رحم آئے تو آئے ورنہ وہ کڑی مار ہے کیا ہونا ہے

(حدائق بخشش)