قوم لوط کی نافرمانیاں از بنت رضوان احمد عطاریہ،جامعۃ
المدینہ قطب مدینہ ملیر
اللہ پاک نے
قرآنِ کریم میں اُمّتِ محمدی کی عبرت و
نصیحت کیلئے سابقہ اُمّتوں کی نافرمانیوں کو بیان فرمایا ہے۔ انہی میں سے ایک حضرت
لوط علیہ السلام کی قوم بھی ہے۔حضرت لوط علیہ
السلام حضرت
ابراہیم علیہ
السلام
کے بھتیجے ہیں، جب آپ کے چچا
حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے شام کی طرف
ہجرت کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلاماُردن میں اُترے۔اللہ پاک نے آپ کو اہلِ سُدوم کی طرف مبعوث کیا،آپ اِن لوگوں کو دینِ حق کی
دعوت دیتے تھے اور فعلِ بدسے روکتے تھے۔قومِ لوط کی سب سے بڑی نافرمانی اور خباثت
لواطت یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا۔اِغلامبازی حضرت لوط علیہ السلامکی قوم کی ایجاد
ہے اسی لئے اسے’’ لواطت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ حرامِ قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔احادیثِ مبارکہ اور بزرگانِ دینکے آثار میں لواطت کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین بار ارشاد
فرمایا:’’لَعَنَ اللہُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘اس شخص پر اللہ پاک کی لعنتہو جو قومِ لوط والا عمل کرے۔
(سننِ کبری للنسائی،ابواب التعزیرات
والشہود،
من عمل عمل قوم
لوط،4/322، حدیث:7337)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو قومِ لوط والا عمل کرتے پاؤ تو
کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کردو۔(ابوداود، کتاب الحدود، باب فیمن عمل عمل
قوم لوط،4/211،حدیث:4462)
حضرت ابو
سعیدصعلوکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عنقریب اس اُمتمیں ایسی جماعت
پیدا ہو گی جن کو لوطی کہا جائے گا اور ا ن کی تین قسمیں ہیں:ایک وہ جو محض
دیکھتے ہیں،دوسرے وہ جو ہاتھ ملاتے ہیں اور تیسرے وہ جو اس خبیث عمل کا ارتکاب
کرتے ہیں۔
(کتابُ الکبائر، ص-63-64)(تفسیرصراط الجنان،پ8،الاعراف، تحت الآیۃ:80)
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں
پائی جانے والی بعض نافرمانیاں یہ ہیں:
راہگیروں کو لوٹتے اور اپنے ساتھیوں کی خیانت کرتے۔
بےحیائی والی گفتگو، قصہ گوئی اور مختلف قسم کے برے کام اور بری باتیں کرتے حتی کہ
اپنی مجلسوں میں ذرہ بھر حیا نہ کرتے۔
بعض اوقات ان کی مجلسوں میں
برے کام کیے جاتے مگر وہ ان پر ناپسندیدگی کا اظہار تک نہ کرتے۔کوئی نصیحت ان پر
اثر نہ کرتی۔
حتی کہ انہوں نے اپنی طرف بھیجے ہوئے رسول کو اپنی بستی سے باہر نکالنے کا ارادہ
کیا اور ان کو کمزور سمجھا اور ان سے مذاق و ٹھٹھا کیا۔(قصص الانبیاء)ان کی نافرمانیوں کے نتیجے میں الله پاک نے ان پر ایسا عذاب بھیجا جو ان کے وہم و گمان میں نہ تھا اور ان
کو بعد میں آنے والوں کیلئے باعثِ عبرتو نصیحت اور مثال بنادیا۔ارشادِ باری ہے:فَاَخَذَتْہُمُ
الصَّیۡحَۃُ مُشْرِقِیۡنَ ﴿ۙ۷۳﴾ فَجَعَلْنَا
عٰلِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیۡہِمْ حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ﴿ؕ۷۴﴾ترجمۂ کنز العرفان: تو دن نکلتے ہی
انہیں زوردار چیخ نے آپکڑا۔ تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ
کردیا اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے۔(پ14،الحجر: 74-73)اللہ پاک ہمیں عبرت حاصل کرنے، اپنی نافرمانی سے بچنے، اپنی اور
اپنے رسول صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم