اللہ پاک نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے بہت سے نبیوں کو مبعوث فرمایا،جنہوں نے اپنی قوموں کو واحد و یکتا اللہ پاک پر ایمان لانے کی دعوت دی،  ان میں سے جن کو اللہ پاک نے توفیق دی، انہوں نے دعوتِ اسلام کو قبول کیا اور جن قوموں نے اللہ پاک پر ایمان لانے سے انکار کیا، وہ عذابِ نار کی مستحق ہوئیں۔انہی میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ہے، آپ نے اپنی قوم کو دینِ حق کی دعوت دی اور فعلِ بد سے روکا،قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا، اسی پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہوجو سارے جہان میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کے لئے مَردوں کے پاس جاتے ہو۔(تفسیرصراط الجنان، پ8،الاعراف:80)جب حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اصلاحی وعظ سنایا تو اس پر ان کی قوم نے نہایت بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ ان کی نافرمانی کرتے ہوئے جو کہا، اس کو قرآنِ پاک کی زبان میں پڑھئے:ترجمۂ کنزالایمان:اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا تھا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ 8، الاعراف:82)جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیاں حد سے بڑھ گئیں اور وہ اپنی بدفعلیوں سے باز نہ آئے تو حضرت لوط علیہ السلام کی غمگین و رنجیدہ ہوگئے تو اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ زمین پر تشریف لائے اور حضرت لوط علیہ السلام سے فرمایا:اے اللہ پاک کے نبی!آپ بالکل فکر نہ کریں، ہم لوگ اللہ پاک کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر عذاب لے کر اُترے ہیں،لہٰذا آپ صبح ہونے سے قبل اپنے مؤمنین اور اہل و عیال کو لے کر اس بستی سے دور چلے جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔(عجائب القرآن، ص 111ملخصاً)آپ کے بستی سے جانے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پانچوں بستیوں کو اپنے پَروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے، کچھ اُوپر جا کر ان بستیوں کو اُلٹ دیا،یہ آبادیاں گر کر چکنا چور ہو گئیں۔پھر پتھروں کی برسات ہوئی جس سے قومِ لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔قومِ لوط کی نافرمانیوں کے سبب ان کی بستیاں اُلٹ پَلٹ کر دی گئیں اور مجرموں پر پتھر کی برسات کر کے انہیں نیست و نابود کر دیا گیا۔