اس دور ِ پرفتن مىں بدامنى و بے چىنى کاپورے عالم پر تسلط
ہے اور انسان اپنى بدعملىوں کے باعث انتہائى کرب و پرىشانى کى گرفت میں آچکا ہے، جب کہ اس کى اىک وجہ بداخلاقى بھى ہے
کىونکہ حسنِ اخلاق اىک اىسى چىز ہے کہ جس
کا خىال رکھنا انسان کے لىے ضرورى اور اس سے غفلت برتنا دىن و دنىا کے نقصان کا
موجب ہے۔
آقا صلى اللہ تعالی علیہ وسلم کى تشرىف آورى کا اىک اور مقصد لوگوں کے اخلاق و معاملات کو
درست کرکے ان کے اندر سے بداخلاقى کو جڑ سے اکھاڑنا بھى ہے چنانچہ جہا ں آپ صلى
اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے اچھے اخلاق
کى فہرست مرتب فرما کر زندگى کے تمام شعبوں پر اسے نافذ کىا وہىں بداخلاقى کے
نقصانات بىان کرکے اس سے بچنے کا حکم اور اس پر کار بند رہنے کى ہداىت فرمائى: اس کے متعلق حضور صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وسلم نے ارشادفرماىا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: (جس مىں ىوں بھى ہے،
جس سے مىں برائى کا ارادہ کرتا ہوں اسے برے اخلاق دے دىتا ہوں۔ (جامع الاحادىث
الحدىث، ۱۵۱۲۹۔ج ۵، ص ۳۲۵)
ہرذى شعور سمجھ سکتا ہے کہ بداخلاقى مىں کوئى بھلائى نہىں
جب کہ نقصانات کا پہلو ہر جگہ نماىاں ہىں لہذا گھروں مىں مدنى ماحول نہ ہونے کى اىک وجہ بداخلاقى بھى ہے، کىونکہ اگر اپنے
اخلاق کو سنوار کر ان کىاصلاح کى کوشش نہ کى تو کہىں جہنم مىں نہ جا پڑىں، اللہ
عزوجل نے قرآن مجىد مىں ارشاد فرماىا: ۔ اے اىمان والو! اپنى
جانوں اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کے اىندھن آدمى اور پتھر ہىں۔(پ ۲۸، التحرىم ۶)
بداخلاقى کسى مسلمان کى بلاوجہ شرعى دل آزارى کے ذرىعے خدا و مصطفى صلى اللہ تعالىٰ علیہ و سلم کو اىذا دىنا ہے جیسا کا ىہ فرمانِ
مصطفى صلى اللہ علیہ وسلم ہے جس نے کسى
مسلمان کو اىذا دى اس نے مجھے اىذا دى اور جس نے مجھے اىذا دى اس نے اللہ عزوجل کو اىذا دى،(المعجم الاوسط ج ۲، ص ۳۸۷ حدىث ۳۶۷)
قطع رحم کى اىک صورت بداخلاقى بھى ہے جب آقاصلى
اللہ تعالىٰ علىہ وسلم نے فرماىا: رشتہ کاٹنے والا جنت
مىں نہىں جائے گا۔(بخارى ج ۴، ص ۹۷، حدىث ۵۹۸۴)
بداخلاقى پڑ وسىوں
کى حقىقت کو بھى نظر انداز کردىتى ہے، اىک شخص نے حضور صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وسلم کى خدمت مىں عرض کى ىارسول اللہ صلى
اللہ تعالىٰ علیہ وسلم مجھے ىہ کىوں کر معلوم ہوکہ مىں
نے اچھا کىا ىا برا؟ فرماىا جب تم
پڑوسىوں کو ىہ کہتے ہوئے سنو کہ تمنے اچھ اکىا تو بىشک تمنے اچھا کىا اور جب ىہ
کہتے ہوئے سنو کہ تم نے بُرا کىا تو بےشک تم نے بُرا کىا۔ (ابن ماجہ ج ۴ ، ص ۴۷۹، حدىث ۴۲۲۳)
بداخلاقى سے مزىد اللہ کى ناراضگى ، لوگوں کى ناخوشى، فرشتوں کو اىذا، شىطان کو خوش کرنا، آپس مىں
محبت کا ختم ہونا، تکبر، نااتفاقى، سخت مزاجى، غصے کے وقت خود پر قابو نہ ہونا،
سخت دلى ، مسلمانوں کى خىر خواہى سے محرومى، ادائىگى حقوق مىں سستى، مسلمان کى عزت
کا عدم تحفظ، لوگوں پر ظلم کرنا جىسے نقصانات پھىلتے ہىں۔
ىقىنا بداخلاقى صرف بدبختوں کا حصہ اور شىطان کا ہتھىار ہے
اور حسن اخلاق مىں حسن ہى حسن، جب کہ بداخلاقى مىں کراہىت ہى کراہت ہے اور اس
سے بچاؤ کو اپنا دستوار العقل بنالىنے سے
رنج و مصائب مىں گھرى ہوئى دنىا حقىقى اور سچى مسرتوں سے پھر آشنا ہوسکتى ہے کسى
نے کىا خوب کہا ہے:
ہے
فلاں و کامرانى نرمى و آسانى مىں ہر
بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں