اچھے اخلاق بندے کی سعادت مندی کا پتا
دیتے ہیں جیسا کہ حُسْنِ اَخْلَاق کے پَیکر، مَکارمِ اَخْلاق کی بلندیوں کے رَہْبَر،نبی
محترم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مِنْ سَعَادَۃِ الْمَرْءِ حُسْنُ الْخُلُقِ یعنی حُسنِ اَخلاق بندے کی سعادت مندی میں سے ہے۔(شعب الایمان:باب فی حسن الخلق؛6/249؛حدیث 8039)اور بُرے اخلاق دین ودنیا کے نقصانات پہنچانے میں کوئی کَسَر نہیں چھوڑتے۔
حُسن اَخلاق اور بداَخلاقی کی تعریف:
بداخلاقی کے نقصانات
بیان کرنے سے پہلے اَخْلاق کی تعریف (Definition)ذہن نشین کرلیں ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:اگر نفس میں
موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کےباعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ
وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو
اسےحُسنِ اَخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سےبُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں تو
اسےبداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم:ج3:ص165؛مکتبۃ المدینہ)
بداخلاقی کے دنیوی اور اُخروی نقصانات:
کسی بھی چیز سے بچنے اور بچانے کے لیے اس کے نقصانات کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے
اور بداخلاقی تو ایسی بُری صفت ہے کہ اس کے دنیوی اور اُخروی دونوں طرح کے نقصانات
ہیں، اُن میں سے چند ایک ملاحظہ کیجیے!
بداخلاقی جہنم میں جانے کا سبب ہے:
حضرت سیِّدُنافُضَیْل بن عِیاضعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَہَّابسے مروی ہےکہ بارگاہِ رسالت میں عرض
کی گئی:ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں
قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی
ہے۔توآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں
میں سے ہے۔( شعب الايمان،باب فی اکرام الجار،۷/ ۷۸، حديث:۹۵۴۵)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی
ہے کہ ''حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں( لے جانے والا) ہے فحش گوئی، بد اخلاقی
کی ایک شاخ ہے اوربداخلاقی جہنم میں (لے جانے والی )ہے ۔'' (جامع التر مذی ،کتاب البر و الصلۃ، رقم ۲۰۱۶)
منقول ہےکہ"اِنَّ
الْعَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ سُوْ ءِخُلُقِہٖ اَسْفَلَ دَرْکَ جَھَنَّمَ"یعنی انسان اپنے بُرے اخلاق کے
سبَب جَہَنَّم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔(مساویٔ الاخلاق للخرائطی،باب
ماجاء فی سوء الخلق من الکراهة،ص۲۲، حديث:۱۲)
بداخلاقی عمل کوخراب کردیتی ہے:
"شعب الایمان" میں ہے کہ بد اخلاقی عمل کو
اس طرح خراب کردیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔( شعب الايمان،باب فی حسن
الخلق،۶/ ۲۴۷، حديث:۸۰۳۶)
نیک لوگ بداخلاق
کواپنا رفیق نہیں بناتے:
حضرت
سیِّدُنافُضَیْل بن عِیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:اگر
کوئی اچھے اخلاق والا فاسق میرا رفیق سفر ہویہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ کوئی
بداخلاق عابد میرا رفیق سفر ہو۔ (احیاء العلوم:ج3:ص161:مکتبۃ
المدینہ)
سیدنا جنید بغدادی
رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ''میرے پاس اگر خوش اخلاق فاسق
بیٹھتے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ بد اخلاق قاری (عالم) بیٹھے ۔(فیضان احیاء
العلوم:272؛مکتبۃ المدینہ)
نیکیوں کی کثرت فائدہ نہیں دیتی:
حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن مُعاذرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:بد اخلاقی ایک ایسی آفت ہے کہ اس کے ہوتے
ہوئےنیکیوں کی کثرت بھی فائدہ مند نہیں ہوتی۔ (احیاء
العلوم:ج3:ص162:مکتبۃ المدینہ)
اللہ کریم ،صاحب خلقِ عظیم کے صدقے ہمیں بداخلاقی اور اسکے نقصانات سے محفوظ
فرمائے۔آمین