اسلام کا یہ حسن ہے کہ اس نے معاشرے کا امن و سکون برباد کرنے والے کاموں سے بچنے کا حکم سختی سے دیا، انہی کاموں میں سے ایک تجسس(عیب جوئی) بھی ہے، اور وہ لوگوں کی چھپی باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا ہے۔ (حديقۃ الندیہ، الخلق الرابع و العشرون، 3/160)۔جس کی کثیر مثالیں ہمارے معاشرے میں عام ہیں، جیسا کہ

(1) کسی سے یہ پوچھنا: رات دیر تک جاگتے رہتے ہو، فجر بھی پڑھتے ہو یا نہیں؟

(2) کسی نے نوکر رکھا تو اُس سے پوچھنا: آپ کا نیا نوکر برابر کام کرتا ہے یا نہیں؟ یہ بھی بِلا اِجازتِ شرعی پوچھنا عیب ڈھونڈنا ہے اور اس سوال کے جواب میں پورا خطرہ ہے کہ جس سے پوچھا گیا وہ نوکر کے بارے میں کام چور ہے، حرام خور ہے وغیرہ کہہ کر گنہگار ہو جائے۔( نیکی کی دعوت، ص399، بتقدم وتاخر)

(3)اسی طرح بِلا اِجازتِ شرعی کسی کا کوئی عیب معلوم کرنے کے لئے اس کا پیچھا کرنا، اس کے گھر میں جھانکنا وغیرہ بھی تجسس میں داخِل ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! (1) کسی مسلمان کے عیب تلاش کرنا حرام ہے۔( فتاویٰ رضویہ، 14/271، بتغیر) (2) بےدین، فساد کرنے والوں کے حالات چھپ کر دیکھنا سننا تا کہ ان کے فساد کی روک تھام ہو سکے، جائز ہے۔( مراٰۃ المناجیح، 7/326، بتغیر قلیل) (3) نوکر رکھنے، شراکت داری (یعنی پارٹنر شپ کرنے) یا کہیں شادی کا اِرادہ ہے تو حسبِ ضرورت معلومات کرنا گُناہ نہیں۔( نیکی کی دعوت، ص398)

اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿لَا تَجَسَّسُوْا ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)تفسیر خزائن میں ہے: مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا۔( تفسیر خزائن العرفان، پ26، الحجرات، تحت الآیۃ:12)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی عیب جوئی کی مذمت بیان فرمائی ہے:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :اے وہ لوگو جو زبان سے ایمان لائے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کی غیبت مت کرو اور نہ ان کے عُیُوب کو تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اُس کا عیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرما دے تو اسے رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر (چھپ کر بیٹھا ہوا) ہو۔( ابو داؤد، كتاب الادب، باب فى الغیبۃ، ص765، حديث: 4880)

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو کسی کو بِلا وجہ بَدنام کرے گا قدرت اسے بَدنام کر دے گی۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح،6/618)

(2)مِعْرَاج کی رات سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن پر کچھ اَفراد مُقَرَّر تھے، اِن میں سے بعض افراد نے اُن لوگوں کے جبڑے کھول رکھے تھے اور بعض دوسرے اَفراد اُن کا گوشت کاٹتے اور خون کے ساتھ ہی اُن کے منہ میں دھکیل دیتے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا، اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کیا : یہ لوگوں کی غیبتیں اور اُن کی عیب جوئی کرنے والے ہیں۔( مسند الحارث، كتاب الايمان، باب ما جاء فى الاسراء،1/1172، حدیث:27)

(3)حضورنبی ٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: منہ پر برا بھلا کہنے والوں ، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ (بروزقیامت)کتوں کی شکل میں جمع فرمائے گا۔(الجامع لابن وہب، باب العزلۃ،حدیث:428،ص534،التوبیخ والتنبیہ لابی الشیخ،باب البھتان وماجاء فیہ،حدیث:220،ص97)

(4) حضورنبی ٔپاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سب سے زیادہ الله پاک کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ وہ ہیں جو چغلیاں کھاتے،دوستوں کے درمِیان جدائی ڈالتے اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرتے ہیں۔( مسندامام احمدبن حنبل، حديث اسماء ابنۃيزيد،ج10،ص442،حديث:27670)

اللہ پاک ہمیں اس گناہ سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا:﴿لَا تَجَسَّسُوْا ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)یعنی مسلمان کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ۔

تجسّس کی مذمّت: حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ (پاک) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کر دے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4 / 354، حدیث: 4880)

تجسّس کے اسباب :سب سے پہلے ہے بغض و کینہ اور حسد اپنے دل میں کسی بھی مسلمان کے لیے کینہ نہ رکھے یہ تو ویسے بھی برا فعل ہے مگر اس کی وجہ سے بھی بندہ تجسّس میں مبتلا ہوجاتا ہے کیوں کہ جس سے حسد یا بغض ہوگا تو بندہ اس کے عیب تلاش کرے گا ہمیں چاہیے نہ کسی مسلمان سے حسد کریں اور نہ کسی کے لیے دل میں کینہ رکھے ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئیں۔

تجسّس کا علاج :اس کا جو سب سے بہترین علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے عیبوں کو دیکھے اور اسی کو دور کرنے کی کوشش کرے دوسروں کے عیب نہ ڈھونڈے شیخ سعدی فرماتے ہیں: اپنے جسم پر زہریلے سانپ اور بچھو بیٹھے ہیں اور دوسروں کی مکھیاں اڑانے میں ہم لگے ہیں یعنی ہمیں اپنے بڑے بڑے عیب نظر نہیں آتے دوسروں کے چھوٹے عیب ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ اللہ پاک کی رضا کے لیے سب سے محبت کریں اِن شاءلله لوگ آپ سے بھی محبت کریں گے امیر اہلسنت فرماتے ہیں: محبت دو گے محبت ملے گی اور جو بندہ آپ سے محبّت سے پیش آئے تو آپ اس کے عیب بھی نہیں ڈھونڈیں گے۔ اللہ پاک ہم سب کو ہر گناہ سے بالخصوص تجسّس جیسے برے گناہ سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ : تجسّس کے بارے میں مزید معلومات کے لیے دعوت اسلامی کا اشاعتی ادارہ مکتبۃُ المدینہ کی کتاب نیکی کی دعوت صفحہ 357 تا 402 کا مطالعہ کیجیے۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! آج کل ہم دوسروں کی خامیاں جاننا بہت پسند کرتے ہیں اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ برائی کا ارتکاب کی تلاش و جستجو کرنا اس سے منع کیا گیا ہے اور یہ تجسّس ہے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسروں کے گھروں میں جھانکے یا دوسروں کی غلطیوں کو نوٹ کرنا یا دوسروں کی خفیہ باتیں و عیب جاننے سے بچنا چاہیے میں آپ کو بتا دوں کہ تجسّس کہتے کسے ہیں ؟

تجسس کی تعریف : لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے۔(احیاء العلوم، 3/459، ماخوذ)

اللہ پاک قراٰنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے:﴿ لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)

اللہ پاک کے محبوب، دانائے غُیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے وہ لوگو! جو زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کو ایذا مت دو، اور نہ ان کے عیوب کو تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اُس کا عیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرما دے تو اُسے رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانہ میں ہو۔ (شعب الایمان ، باب فی تحریم اعراض الناس، 5/296، حدیث: 6704، بتغیر)

ایک اور مقام پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: ’’غیبت کرنے والوں ، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک (قیامت کے دن )کتّوں کی شکل میں اٹھائے گا۔(التّوبیخ والتّنبیہ لابی الشیخ الاصبھانی، ص97 ، حدیث:220، الترغیب والترھیب، 3/325 ، حدیث :10)

حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے بارے میں کچھ سنتا ہے تو اسے بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور یہ اسے برہنہ کرنے سے بڑا گناہ ہے۔ ( احیاء العلوم، 2/ 644)

تجسس کا ایک سبب نفاق ہے اسی لیے امام غزالی فرماتے ہیں : ’’مومن ہمیشہ اپنے دوست کی خوبیوں کو سامنے رکھتا ہے تاکہ اس کے دل میں عزت، محبت اور احترام پیدا ہو جبکہ منافق ہمیشہ بُرائیاں اور عیوب دیکھتا ہے ۔‘‘اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی ذات سے نفاق کو دور کرنے کی عملی کوشش کرے ۔(احیاء العلوم، 2/640)

تجسس کا دوسرا سبب چغل خوری کی عادت ہے۔ محبتوں کے چور چغل خور کو کسی نہ کسی منفی پہلو کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے وہ ہر وقت مسلمانوں کے پوشیدہ عیوب کی تلاش میں لگا رہتا ہے، پھر یہ عیب اِدھر اُدھر بیان کر کے فتنے کا باعث بنتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ چغل خوری کی وعیدوں کو پیش نظر رکھے اور ان سے بچنے کی کوشش کرے۔

تجسس کا تیسرا سبب بغض و کینہ اور ذاتی دشمنی ہے۔ جب کسی مسلمان کا بغض و کینہ دل میں آجاتا ہے تو اس کا سیدھا کام بھی الٹا دکھائی دیتا ہے یوں نظریں اس کے عیوب تلاش کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے دل کو مسلمانوں کے بغض و کینہ سے پاک وصاف کرے، اپنے دل میں مسلمانوں کی محبت پیدا کرنے کے لیے اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پیش نظر رکھے: جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی طرف محبت بھر ی نظر سے دیکھے اور اس کے دل یا سینے میں عداوت نہ ہو تو نگاہ لوٹنے سے پہلے دونوں کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔(شعب الایمان، باب في الحث على ترك الغل والحسد، 5/271، حدیث: 6624،ملتقطا)

اللہ پاک ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب چھپانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے، اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


دینِ اسلام کی نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور ا گر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت مزید بڑھ جاتی ہے۔اس لئے دینِ اسلام نے ان تمام افعال سے بچنے کا حکم دیا ہے جس سے ایک مسلمان کی عزت پامال ہوتی ہو، ان میں سے ایک فعل تجسس (یعنی کسی کے عیب تلاش کرنا بھی ہے) جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم کرنے میں بہت بڑا کردار ہے۔

تجسس کی تعریف: لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص318) پارہ 26 سورۃالحجرات،آیت نمبر: 12 میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَاتَجَسَّسُوْا﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ تفسیر خزائنُ العرفان میں ہے: یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چُھپے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ستاری سے چُھپایا۔(خزائن العرفان، ص930) آئیے! اب تجسس کی مذمت کے متعلق چند احادیث پڑھئے اور لرزیئے:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اے لوگو! جو زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کے عیب تلاش نہ کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کا عیب ظاہر فرمادے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرمادے تو اسے رُسوا کر دیتا ہے اگر چہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں ہو۔(شعب الایمان، 5/296، حدیث:6704 ملتقطاً) اس سے پتا چلتا ہے کہ کسی کے عیب تلاش کرنا دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔

(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم،ص1063،حدیث:6536 ملتقطاً)

(3)حضور خاتمُ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تِنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ بھول جاتا ہے۔(شعب الایمان، 5/311،حدیث:6761)

(4)حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: جب تم اپنے ساتھی کے عیب ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو (اس وقت) اپنے عیبوں کو یاد کرو۔(شعب الایمان،5/311،حدیث:6758)

(5)اللہ پاک کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: غیبت کرنے والوں، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو الله (قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔(الترغیب والترہیب، 3/ 392،حدیث:10)

تجسس کا حکم: مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے، دینِ اسلام نے عیبوں کو تلاش کرنے اور لوگوں کے سامنے بغیر شرعی اجازت کے بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔

معزز قارئینِ کرام! ذیل میں تجسس کے کچھ اسباب بیان کئے جا رہے ہیں ان کو ذہن نشین کر لیجئے تاکہ ان اسباب سے بچا جائے اور تجسس جیسی باطنی بیماری سے نجات حاصل ہو۔ (1)بغض و کینہ اور ذاتی دشمنی (2)حسد (3)چغل خوری کی عادت (4)نفاق (5)منفی سوچ (6)شہرت اور مال و دولت کی ہوس (7)چاپلوسی کی عادت۔

اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیب چھپانے اور اپنے عیبوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم