مہلکات دو طرح کے ہوتے ہیں : ظاہری اور باطنی۔ جبکہ باطنی
مہلکات ظاہری سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں باطنی مہلکات سے مراد وہ مہلکات(بیماریاں)جن
کا تعلق باطنی عضو (دل) کے ساتھ ہو۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص،23) باطنی مہلکات
ایسی خطرناک بیماریاں ہوتی ہیں کہ اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو یہ انسان کی صحت،
جسم، دنیا یہاں تک کہ اس کی آخرت کو بھی برباد کر دیتی ہیں۔ اُنہی باطنی مہلکات میں سے ایک تجسّس بھی ہے۔ تجسّس
یہ کہ لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا۔ (احیاء العلوم، 2/ 643)
تجسّس ایسی بیماری ہے کہ بندے کی عبادت و ریاضت کو برباد کر دیتا ہے۔ چنانچہ سیدنا
حاتم اصم رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا: عیب نکالنے ولا عبادت گزار نہیں ہو سکتا۔(
منہاج العابدین، ص164) ہمارے ربّ کریم نے ہمیں قراٰنِ کریم کی آیت کے ذریعے تجسّس
کرنے سے منع فرمایا :﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ
ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)اسی طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں
اپنی احادیث مبارکہ کے ذریعے تجسّس کی مذمّت فرمائی اور بچنے کا حکم بھی دیا۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث میں سے چند یہ ہیں۔
(1)کتوں
کی شکل میں: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا غیبت
کرنے والے، چغل خور اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک (قیامت
کے دن) کتّوں کی شکل میں اٹھائے گا ۔(شعب الایمان،5/ 296)مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام انسان قبروں سے انسانی شکل میں اٹھیں گے پھر
محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ بگڑ جائیں گی۔(مراٰۃ المناجیح، 6/ 660)
ذرا سوچیں کہ ہم
لوگ دنیا میں کتّے کو کتنا حقیر سمجھتے ہیں ،اگر کسی کھانے میں منہ ڈال دے تو ہم
اس کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ اگر روزِ محشر ہمیں کتّے کی شکل میں کر دیا گیا
تو ہماری کتنی ذلت و رسوائی ہوگی۔(الامان)
(2) قیامت
کے دن عیب ظاہر :حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے وہ
لوگوں جو زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو مگر دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا
مسلمانوں کو ایذا مت دو،اور نہ ان کے عیب تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا
عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اُس کے عیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر
فرما دے تو اسے رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں ہو۔ (الترغیب
والترہیب،3/ 325)
ہمیں بھی سوچنا چاہیےکہ جس کے اللہ پاک عیب ظاہر فرما دے
اور اسے رسوا کردے تو اس کے لیے دنیا وآخرت میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے پھر اس کا
ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔
(3) بھائی بھائی ہو جاؤ: حضور جانِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے کو
بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، اور نہ تو عیب جوئی کرو نہ کسی کی باتیں
خفیہ سنو، اور نہ تجسس کرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض کرو، نہ ایک دوسرے کی غیبت
کرو اور اے الله کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ۔ (صحيح البخاری، حدیث : 5143)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں حدیث شریف میں ہے کہ مبارک ہو کہ جسے
اپنے عیبوں کی تلاش دوسروں کی عیب جوئی سے باز رکھے۔ (مرقات)یعنی وہ اپنے عیب
ڈھونڈنے میں ان سے توبہ کرنے میں ایسا مشغول ہو کہ اسے دوسروں کے عیب ڈھونڈنے کا
وقت ہی نہ ملے۔ (مرآۃالمناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ج6 ،حدیث :8502)
نہ تھی اپنے جو عیبوں کی ہم
کو خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائی پر جو نظر تو
جہاں میں کوئی برا نہ رہا۔(احمد یار خان نعیمی)
(4) دوسروں کے عیب ڈھونڈنا خود اپنا عیب: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: انسان
کے لیے یہی بہت بڑا عیب ہے کہ جو عیب خود اس کے اپنے اندر ہے اس پر تو اس کی نظر
نہیں پڑتی لیکن وہ دوسروں کے عیب کو دیکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو غیر اہم باتوں کی
وجہ سے تکلیف پہنچاتا ہے۔ (الکافی، 2/ 520)
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان خطا کا پتلا ہے ۔ انسانوں
میں انبیا کے علاوہ کوئی بھی گناہوں سے معصوم نہیں لہذا دوسروں کی عیب جوئی کرتے
رہنا خود انسان کی اپنی کمزوری ہے۔ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
فرمان کے مطابق دوسروں کی عیب جوئی کرنا بجائے خود اس شخص کے لیے عیب ہے۔
(5)انسان کا اپنا گوشت خون والا اس کے منہ میں: مروی ہے کہ معراج کی رات حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن پر کچھ افراد مقرر تھے اِن میں سے بعض افراد
نے اُن لوگوں کے جبڑے کھول رکھے تھے اور بعض دوسرے افراد اُن کا گوشت کاٹتے اور
خون کے ساتھ ہی اُن کے منہ میں دھکیل دیتے ۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا کہ اے جبریل یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی یہ لوگوں کی غیبتیں اور اُن کی عیب جوئی
کرنے والے ہیں۔(مسند الحارث، کتاب الایمان، باب ما جاء فی الاسراء، 1/172،حدیث:
27)
ذرا ہمیں بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر دنیا میں ہم جو گوشت
کھاتے ہیں اس میں ہلکی سی بو آجائے یا ہلکا سا بھی خون لگا ہو تو ہم اسے کھانا
پسند نہیں کرتے تو ہم اپنا ہی گوشت خون والا کس طرح کھا سکتے ہیں ۔(الامان)
اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں تمام باطنی مہلکات سے
اور بالخصوص تجسّس سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔ اور ہمیں اپنے عیب تلاش کرنے کی
توفیق عطا فرمائے نہ کہ دوسروں کے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم