ایک ایسا گناہ اور بری عادت جو آج ہر دوسرے میں پائی جاتی ہے اور جس کے اندر یہ عادت (habit) پائی جاتی انہیں خود بھی معلوم نہیں ہوتا اور وہ گناہ (sin) اور بری عادت " تجسس" ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آخر تجسس ہے کیا ؟ کیونکہ اگر ہمیں اس گناہ اور برائی کے بارے میں معلوم ہوگا تو ہی ہم اس برائی سے بچ سکیں گے ۔

تعریف: لوگوں کی خفیہ باتیں (یعنی چھپی ہوئی باتیں) اور عیب جاننے کی کوشش کرنا "تجسس" کہلاتا ہے ۔اور چونکہ دینِ اسلام کی نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت کی قدر اسلام کی نظر میں مزید بڑھ جاتی ہے ، اسی لیے دینِ اسلام نے ان تمام افعال سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ جن سے کسی انسان کی عزت و حرمت پامال ہوتی ہو ، ان افعال میں سے ایک فعل کسی کے عیب تلاش کرنا اور اسے دوسروں کے سامنے بیان کر دینا ہے جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم کرنے میں بہت بڑا کردار ہے ، اس وجہ سے جہاں اس شخص کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کا عیب لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائے وہیں وہ شخص بھی لوگوں کی نفرت اور ملامت کا سامنا کرتا ہے۔ جو عیب تلاش کرنے اور انہیں ظاہر کرنے میں لگا رہتا ہے ، یوں عیب تلاش کرنے والے اور جس کا عیب بیان کیا جائے ، دونوں کی عزت و حرمت چلی جاتی ہے ،اس لئے دینِ اسلام نے عیبوں کی تلاش میں رہنے اور انہیں لوگوں کے سامنے شرعی اجازت کے بغیر بیان کرنے سے منع کیا اور اس سے باز نہ آنے والوں کو سخت وعیدیں سنائیں تاکہ ان وعیدوں سے ڈر کر لوگ اس برے فعل (کام ) سے باز آ جائیں اور سب کی عزت و حرمت کی حفاظت ہو ۔

چنانچہ قراٰن مجید اور احادیث مبارکہ میں بھی اس گناہ کی مذمت بیان کی گئی ہے ۔ چنانچہ ، اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿لَا تَجَسَّسُوْا ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے پوشیدہ حال کی جستجو میں نہ رہو۔ جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے ۔

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ " خزائن العرفان" میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے حال کی جستجو میں نہ رہو ۔جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے ۔

حدیث شریف میں ہے کہ گمان سے بچو گمان بڑی جھوٹی بات ہے اور مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو ، ان کے ساتھ حرص و حسد ، بغض ،بے مروتی نہ کرو ، اے اللہ پاک کے بندو! بھائی بھائی بنے رہو ۔جیسا تمہیں حکم دیا گیا ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہ کرے ، اس کو رسوا نہ کرے ، اس کی تحقیر نہ کرے ، تقوی یہاں ہے ، تقوی یہاں ہے ، تقوی یہاں ہے ۔ ( اور یہاں کے لفظ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا)

آدمی کے لیے یہ برائی بہت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر دیکھے ، ہر مسلمان مسلمان پر حرام ہے اس کا خون بھی ، اس کی آبرو بھی ، اس کا مال بھی ، اللہ پاک تمہارے جسموں اور صورتوں اور عملوں پر نظر نہیں فرماتا لیکن تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے ۔(بخاری مسلم)

حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو بندہ دنیا میں دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ پاک روز قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔

اب اس کی مذمت سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں : چنانچہ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ان لوگوں کے گروہ جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا ، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو ، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا ، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کردے ) گا اور جس کی اللہ (پاک ) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا ) اس کو رسوا کر دے گا ، اگرچہ وہ مکان کے اندر ہو ۔(ابو داؤد ، کتاب الادب ، باب فی الغیبۃ ، 4/354 ، حدیث:4880)

اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا منافق کا شعار (یعنی طریقہ) ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے ، یقیناً اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل و خوار ہوجائے۔ لہٰذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر کہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ (چھپے ہوئے) عیوب ظاہر نہ فرما دے جس سے وہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہو جائیں ۔

اور اس گناہ کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنے حواریوں سے ارشاد فرمایا: اگر تم اپنے بھائی کو اس حال میں سوتا پاؤ کہ ہوا نے اس ( کے جسم ) سے کپڑا ہٹا دیا ہے ( جس کی وجہ سے اس کا ستر ظاہر ہوچکا ہو تو ایسی صورت میں ) تم کیا کرو گے ؟ انہوں نے عرض کی : اس کی ستر پوشی کریں گے اور اسے ڈھانپ دیں گے ۔ تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا: بلکہ تم اس کا ستر کھول دو گے۔ حواریوں نے تعجب کرتے ہوئے کہا : سبحان اللہ! یہ کون کرے گا ؟ تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے (عیوب وغیرہ ) کے بارے میں کچھ سنتا ہے تو اسے بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور یہ اسے برہنہ کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے ۔(احیاء العلوم ، 2/ 644) اس سے معلوم ہوا کہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کا گناہ انسان کو برہنہ کرنے سے بھی زیادہ ہے ۔

اس گناہ کی مذمت کے متعلق ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو : چنانچہ اللہ کے محبوب ، دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: غیبت کرنے والوں ،چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک ( قیامت کے دن ) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا ۔( التوبیخ والتنبیہ لابی الشیخ الاصبھانی ص97 ، حدیث:220 ، الترغیب والترہیب، 3/ 325 ، حدیث: 10 )

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکلِ انسانی اٹھیں گے پھر محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ ( یعنی بگڑ جائیں گی مثلاً مختلف جانوروں جیسی ہو جائیں گی ) (مراة المناجیح، 6/660)

ان سب باتوں سے ہمیں معلوم ہوا کہ یہ گناہ کس قدر بڑا ہے جس کی ہمیں ذرہ بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ کبھی کسی کے عیب تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں تو کبھی کسی اور کے اور اس بات کی طرف تو دھیان ہی نہیں ہوتا کہ خود کیا کر رہے ہیں کن کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور اگر عام طور دیکھا جائے تو وہ لوگ اکثر پریشان ہی رہتے ہیں جو ان کاموں میں لگے ہوتے ہیں کہ وہ کیا کرتا ہے اس کے پاس اتنا پیسا کہاں سے آیا اس طرح کی فضول باتوں میں لگے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو ذہنی سکون نہیں دے پاتے اور بعد میں شکایت یہ ہوتی ہے کہ معلوم نہیں کیوں اتنی بے سکونی ہو رہی ہے دل بے چین ہے تو ذرا غور کیجئے کہ آپ بھی کہیں اس گناہ اور برائی میں مبتلا تو نہیں جس کی اس قدر مذمت قراٰن مجید اور احادیث مبارکہ میں آئی ہے کیونکہ ہم اس گناہ کو کر بھی رہے ہوتے ہیں مگر ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا تو دیکھئے اور غور کیجئے کہ کیا آپ واقعی اس گناہ کے مرتکب (کرنے والے ) تو نہیں ہو رہے اگر ایسا ہو تو پھر اس گناہ کو فوراً ہی خود سے دور کیجئے اور خود بھی اس سے دور ہو جائے کیونکہ ایک عاشقِ رسول کبھی بھی وہ کام کرنا ہی نہیں چاہے گا جس کی مذمت قراٰن و حدیث میں آئی اور اس کی اتنی خطرناک وعیدیں بیان کی گئی ہوں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس گناہ سے خود بھی دور ہو جائیں اور اس گناہ کو بھی خود سے بہت دور کر دیں ، کیونکہ ہمارا مقصد تو صرف اللہ پاک کو راضی کرنے والے کام کرنا ہے اور جن کاموں میں اللہ پاک کی رضا نہیں بلکہ ناراضگی ہے تو اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے ۔

اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ، اور ہم سب کو اپنی اور اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم