راہ علم کا سفر آسان نہیں ہے، مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دشوار منزل تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتی ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بڑے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ علمِ دین حاصل کیا کرتے تھے، بطورِ ترغیب کچھ واقعات پیش خدمت کیے جاتے ہیں۔

حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ سے مصر کا سفر محض اس لیے اختیار کیا کہ حضرت عتبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث سنیں، حضرت امام شیبانی علیہ الرحمۃ شب بیداری کیا کرتے تھے اور مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے، جب آپ کو نیند آنے لگتی تو منہ پر پانی کے چھینٹیں مارتے تاکہ نیند ختم ہوجائے،

آپ علیہ الرحمۃ کو مطالعے کا اس قدر شوق تھا کہ آپ نے رات کے تین حصے کیے تھے ایک عبادات کا حصہ ایک مطالعے کا اور ایک حصہ آرام کا ہوتا۔

حضرت شاہ عبدالمن دہلوی اس قدر شوق سے مطالعہ فرماتے کہ دورانِ مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھو کر جُھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے آپ کو پتا ہی نہ چلتا ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مطالعہ کے شوق کا یہ عالم تھا کہ دو جلدوں پر مشتمل القودا الدریہ جیسی ضخیم کتاب فقط ایک رات میں مطالعہ فرمالی۔

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کو مطالعہ کا اس قدر شوق ہے کہ آپ نے اپنے گھر میں ایک کتاب گھرکتب خانہ بنایا اور اس میں سینکڑوں کتابیں اپنے علم کے گوہر و نایاب سمائے ہوئے ہیں

افسوس جہا ں آج کل دور اسلاف کی اور بہت سے واقعات مٹتے جارہے ہیں وہیں مطالعہ کا شوق بھی ناپید ہوچکا ہے، بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے قیمتی وقت کی قدر کرتے ہیں اور دینی مطالعہ کرتے ہوں ، سوشل میڈیا میں گم ہو کر لوگ اپنا بہت ہی زیادہ وقت ضائع کررہے ہیں، دعوت اسلامی جہاں اور بہت کچھ عطا کررہی ہے، وہیں امیر اہلسنت ہر ہفتے ایک رسالہ بھی عطا کررہے ہیں ۔