ہمارے بزرگوں کی زندگیاں وقت کی قدر ،علم سےمحبت، مطالعہ
اور تصنیف وتالیف میں صرف ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے نام ہمارے سامنے آتے ہیں
تو ہمارے سر عقیدت سے جھک جاتے ہیں اور ہماری زبان ان کی تعریف کرنا شروع کر دیتی
ہے بزرگان دین کے عظیم کارناموں اور محنتوں کی وجہ سے آج ہمارے لئے دین اتنا آسان
ہو چکا ہے-
ان کے شب و روز کی محنتوں نے ہمیں بے پناہ مشقتوں سے بچا
لیا، ان کے وقت کی قدر کرنے نے ہمارے لئے دین کے راستے آسان کر دیئے، ان کی بلند
ہمتوں نے ہمارے لئے قرآن وحدیث کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی راہیں ہموار کردیں،
لہذا بزرگانِ دین کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، بزرگانِ دین کی عادات و
اطوار کو اپنا کے ہم نہ صرف آخرت میں بلکہ
دنیا میں بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، تلاوت قرآن، نوافل کی ادائیگی اور نیکی کی
دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مطالعہ کرنا بھی بزرگانِ دین کی عادات میں شامل تھا۔ ہمارے
بزرگان دین پوری پوری رات مطالعہ کیا کرتے تھے ،راہ چلتے مطالعہ کیا کرتے تھے،جبکہ
آج کل کے طلباء میں کہ مطالعہ کا ذوق ناپید ہو رہا ہے۔
مطالعہ کی عادت ڈالنے کے لئے بزرگانِ دین کے مطالعہ کے واقعات
پڑھنا بہت مفید ہے۔علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "جو حصول علم دین
میں کماحقہٗ کامیابی پانا چاہے وہ کثرت سے مطالعہ کرے بالخصوص بزرگانِ دین کے
حالاتِ زندگی اور ان کی کتب پڑھے کیونکہ ان کی کوئی بھی کتاب فائدے سے خالی نہیں
ہے ۔
(صید الخاطر ص 338 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1422ھ)
آئیے مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کے لیے بزرگان دین کے شوقِ
مطالعہ کے کچھ واقعات پڑھتے ہیں ۔
(1) خاتم المحدثین حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی
رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنے شوق مطالعہ کے متعلق فرماتے ہیں : مطالعہ کرنا میرا شب
و روز کا مشغلہ تھا، بچپن ہی سے میرا یہ حال تھا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ کھیل
کود کیا ہے؟ آرام و آسائش کے کیا معانی ہیں؟ سیر کیا ہوتی ہے؟بارہا ایسا ہوا ہے کہ
مطالعہ کرتے کرتے آدھی رات ہوگئی تو والد محترم سمجھاتے: بابا کیا کرتے ہو؟ یہ
سنتے ہی میں فوراً لیٹ جاتااور عرض کرتا: سونے لگا ہوں پھر جب کچھ دیر گزر جاتی تو اٹھ بیٹھتا اور پھر
سے مطالعے میں مصروف ہو جاتا بسا اوقات یوں بھی ہوا کہ دوران مطالعہ سر کے بال اور
عمامہ وغیرہ چراغ سے چھو کر جُھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے پتہ نہ
چلتا۔
(اشعة اللمعات، جلد اول، مقدمہ، صفحہ 72، مطبوعہ فرید بک
اسٹال لاہور)
(2) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے اسلاف مطالعہ کا
اس قدر ذوق رکھتے تھے کہ اپنا کوئی لمحہ بھی ضائع کرنا پسند نہ فرماتے ایسا وہ کیوں
کرتے تھے، آئیے اس کا جواب پانچویں صدی کے جلیل القدر بزرگ حضرت سیدنا علامہ جمال
الدین عبد الرحمٰن ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے لیتے ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالی
علیہ اپنے شوق مطالعہ کا حال یوں بیان فرماتے ہیں:میری طبیعت کتب کے مطالعہ سے کبھی
سیر نہیں ہوئی جب بھی کبھی کسی نئی کتاب پر نظر پڑتی تو لگتا جیسے کوئی خزانہ ہاتھ
آگیا ہو ۔میں نے مدرسہ نظامیہ کے کتب خانے میں موجود چھ ہزار کتب کا مطالعہ کیا
ہے۔مجھے جب بھی کوئی کتاب ملتی ہاتھوں ہاتھ اس کا مطالعہ کرنے لگتا- اگر میں کہوں
کہ میں نے بیس (20) ہزار کتب کا مطالعہ کیا تو بظاہر یہ تعداد زیادہ معلوم ہوگی لیکن
یہ میری طلب سے کم ہے ۔
(صید الخاطر ص 338 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1422ھ)
(3) مشھور محدث امام محمد بن مسلم ابن شہاب زہری رحمۃ
اللہ تعالی علیہ کے شوق مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ کتابوں کے انبار میں بیٹھ کر
مطالعہ کرنے میں اس طرح مصروف ہوجاتے کہ آس پاس کی خبر نہ رہتی ۔ان کی زوجہ محترمہ
ہررات تیار ہو کر ان کے انتظار میں بیٹھ رہتیں کہ میری طرف متوجہ ہوں گے لیکن آپ
بدستور مطالعہ میں منہمک رہتے۔آخر ایک دن وہ بگڑ کر کہنے لگے "خدا کی قسم! یہ
کتابیں مجھ پر تین سو سوکنوں سے بھی زیادہ بھاری ہیں
(روحانی حکایات، صفحہ 31، مطبوعہ ضیاء الدین پبلیکیشنز
کراچی)
(4) حضرت سیدنا امام محمد رحمۃ اللہ تعالی ہمیشہ شب بیداری
فرمایا کرتے تھےاور آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے پاس مختلف فنون کی کتابیں رکھی ہوتی
تھیں۔ جب ایک فن پڑھتے پڑھتے تھک جاتے تو دوسرے فن کے مطالعے میں لگ جاتے تھے۔
(راہ علم، صفحہ 73 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، فصل تحصیل علم
کے موزوں اوقات کا بیان )
(5) امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ تعالی مطالعہ میں
مصروف و مستغرق ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ کھجوریں کھا گئے جس کی وجہ سے آپ رحمۃ
اللہ تعالی کی وفات ہوگئی ۔
(تذکرة المحدثین صفحہ 226 مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)
(6) محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد علیہ
الرحمہ کو مطالعےکا اتنا شوق تھا کہ کے مسجد میں نماز باجماعت میں کچھ تاخیر ہوتی
تو کسی کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کر دیتے۔ جب آپ منظر اسلام بریلی شریف میں زیر تعلیم
تھے تو ساتھی طلباء کے سو جانے کے بعد بھی محلہ سوداگران میں لگی لالٹین کی روشنی
میں اپنا سبق یاد کیا کرتے تھے ۔
(سیرت صدرالشریعہ، صفحہ 201، مطبوعہ مکتبۃ اعلی حضرت
لاہور)