ہمارے اسلاف و اکابر جنہىں اللہ تعالىٰ نے مختلف علوم و فنون مىں امامت کا درجہ عطافرماىا وہ
مطالے کے بارے مىں کىا فرماتے ہىں اور انہوں نے اس کو
کتنى اہمىت دى ؟ درجِ ذىل اقوال حکاىات سے اندازہ لگائىے۔
حضرت سىدنا امام بخارى سے عرض کى گئى، حافظے کى دوا کىا
ہے؟ فرماىا: ادمان
النظرفى الکتب یعنی کتب بینی کرنا ۔
حضرت امام برہان الدىن زرقونى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے
ہىں : اے طالبِ علم تو ہمىشہ درس و مطالعہ مىں مصروف رہ اس سے کبھى جُدا نہ ہو
کىونکہ مطالعہ کے سبب ہى علم مىں ترقى ممکن ہوسکتى ہے۔(تعلىم التعلىم طرىق القلم ص ۵۹)
چالىس سال تک مطالعہ:
حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہىں: مجھ پر چالىس سال اس حال مىں گزرے ہىں کہ
سوتے جاگتے کتاب مىرے سىنے پر رہتى تھى۔ (جامع بىان العلم ج ۲، ص ۳۹۰)
کتاب دلچسپ رفىق:
خلىفۃ المسلمىن حضرت عمر بن عبدالعزىز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے
پوتےحضرت عبداللہ
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سب سے ملنا جلنا موقوف کردىا تھا اور قبرستان
مىں رہنے لگے تھے، ہمىشہ ہاتھ مىں کتاب
دىکھى جاتى تھى اىک بار آپ سے اس بارے مىں سوال کىا گىا؟ تو کہنے لگے مىں نے قبر سے زىادہ واعظ، کتاب سے
زىادہ دلچسپ رفىق اور تنہائى سے زىادہ بے ضررساتھى کوئى نہىں دىکھا۔(علم اور علما
کى اہمىت ص ۴۱)
استغراق مطالعہ کا علم :
حافظ ابن حجر عسقلانى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے
ہىں ، اىک دن مجلس مذاکرہ مىں امام مسلم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے اىک
حدىث کے بارے مىں استفسار کىا گىا اس وقت آپ اس حدىث کے بارے مىں کچھ نہ بتاسکے،
گھر آکر اپنى کتابوں مىں اس حدىث کى تلاش شروع کردى، قرىب ہى کھجوروں کا اىک ٹوکرا
بھى رکھا ہواتھا ، امام مسلم کے استغراق اور انہماک کا ىہ عالم تھا کہ کھجوروں کى
مقدار کى طرف آپ کى توجہ ہی نہ گئی اور
حدىث ملنے تک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالى ہوگىا اور غىر ارادى طور پر کھجوروں کا
زىادہ کھالىنا ہى ان کى موت کا سبب بن گىا،(تذکرة المحدثىن ص ۱۲۳)
سارى سارى رات مطالعہ:
حضرت امامحمد بن ادرىس شافعى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے
ہىں کہ مىں اىک مرتبہ سارى رات امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ىہاں رہا آپ نے سارى رات اس طرح گزارى
کہ آپ مطالعہ کرتے کرتے لىٹ جاتے کچھ دىر
بعد اٹھ بىٹھتے اور پھر مطالعہ شروع کردىتے ( کچھ دىر طلبہ کے ساتھ ۱۲۵)
محرر مذہب حنفى امام محمد بن حسن شىبانى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سوتے
بہت کم تھے زىادہ تر وقت مطالعہ اور لکھنے لکھانے مىں گزرتا، کسى نے اس بارے مىں پوچھا تو بڑا نصىحت آمواز جواب ارشاد
فرماىا:
مىں کىسے سو سکتاہوں حالانکہ مسلمان ہم ( علماء) پر
اعتماد اور بھروسا کرکے اس لىے مطمئن ہو کر سوتے ہىں کہ جب کوئى مسئلہ درپىش ائے
گا تو ہم امام محمد کے پاس جا کر پوچھ لىں گے اور اگر ہم سو کر وقت گزار دىں تو اس
مىں دىن کا ضىاع ہے۔
مطالعہ اور وقت کى قدر :
علامہ ذہبى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تذکرة الحافظ
ج ۲، ص ۱۱۴ مىں حضرت خطىب بغدادى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے متعلق لکھا
ہے کہ وہ راہ چلتے ہى مطالعہ کىا کرتے تھے تاکہ آپ کے آنے جانے کا وقت ضائع نہ
ہو۔٠(علم اور علما کى اہمىت ص۲۲)
۸۰ فنون پر کتابىں تحرىر کىں :
حافظ ابن رجب حنبلى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہىں، ابو الوفا بن عقىل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے
ہىں ۔ مىں کھانے کے وقت کو مختصر کرنے کى
بہت کوشش کرتا ہوں، اکثر روٹى کے بجائے چورہ بھگو کر استعمال کرتا ہوں تاکہ مطالعہ
کے لىے زىادہ وقت بچ جائے۔(علم اور علما کى اہمىت ص ۲۳)
آپ نے مزىد فرماىا: مطالعہ کرتے کرتے جب آنکھىں جواب
دىنے لگتى ہىں تو مىں لىٹ کر مسائل سوچنے لگ جاتا ۔
امام ابن جوزى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں:
ابوالوفا بن عقىل نے ۸۰ فنون پر کتابىں لکھى ہىں او ران کى اىک کتاب ۸۰۰ جلدوں پر
مشتمل ہے اس کے بارے مىں کہا جاتا ہے ىہ دنىا سب سے بڑى کتاب ہے۔(اىضا ص ۲۰)
ہزارکتب کا مطالعہ :
امام ابن جوزى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تحدىثِ نعمت کے
طور پر بىان کرتے ہىں: دوسرے لڑکے دجلہ کے کنارے کھىلا کرتے تھے اور مىں کسى کتاب
کے اوراق لے کر کسى طرف نکل جاتا اور الگ تھلگ بىٹھ کر مطالعہ مىں مشغول ہوجاتا
تھا۔( علم اور علما کى اہمىت ص ۲۰)
مزىد فرماتے ہىں: مىرى طبىعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سىر نہىں ہوتى تھى، جب کسى
نئى کتاب پر نظر پڑتى ہے تو اىسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئى خزانہ ہاتھ آگىا ہو۔
مىں نے زمانہ طالبِ علمى مىں بىس ہزار کتابوں کا مطالعہ
کىا، مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے بزرگوں، سلف کے حالات و اخلاق ان کى علمى ہمت،
قوت حافظہ، رزق عبادت اور علوم نادرہ کا اىسا اندازہ ہوا جو ان کتابوں کے بغىر
نہىں ہوسکتا تھا، اس کا نتىجہ ىہ ہوا کہ مجھے اپنے زمانے کے لوگوں کى سطح پست
معلوم ہونے لگى، اور اس وقت کے طالب علم کى کم علمى منکشف ہوگئى، مىں نے مدرسہ
نظامىہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کىا جس مىں چھ ہزار کتابىں ہىں، اسى طرح بغداد
کے مشہور کتب خانے ا۔کتب الحنفىہ، ۲، کتب الحمىرى ، ۳، کتب عبدالوہاب ، ۴، کتب ابى
محمد وغىرہ کا مطالعہ کر ڈالا(اىضا ص ۲۹)
لاجواب و بے مثال مطالعہ :
اللہ تعالىٰ کى نشانى علامہ عبدالوہاب شعرانى قدس النورانى نے تفاسىر، شروح احادىث،
لغات ، اصول وکلام قوائد سىرت تصوف وغىرہ کى لاتعداد کتب کا نہ صرف اىک بار مطالعہ
کىا بلکہ بعض کتب جو کئى کئى جلدات پر مشتمل ہىں، انہىں کئى کئى بار پڑھا صرف مطالعہ تفسىر ملاحظہ کىجئے اور حىرت کے سمندر
مىں ڈوب جائىے آپ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے
تفسىر بغوى ، تفسىر ابن زہرہ ، تفسىر ابن کثىر، تفسىر ابن النقىب المقدس (۱۰۰
جلدىں) اىک اىک بار تفسىرقرطبى دوبار تفسىر خازن، تفسىر درِ منثور اور عبدالعزىز
الدىرنى کى تفسىر صغىرہ کبىرہ تىن تىن بار
تفسىر بىضاوى پانچ بار تفسىر ابن عادل سات بار، تفسىر کواشى، دس بار اور تفسیر
جلالىن کا تىس بار مطالعہ فرماىا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مطالعہ کے
متعلق مزىد جاننے کے لىے (طبقات امام شعرانى ص ۳۱،۳۳) کو دىکھا جاسکتا ہے۔
عاشقِ مطالعہ کى نرالى موت :
علامہ حافظ کو جو کتاب مىسر آتى اس کا اول تا آخر
بالاستعاب مطالعہ کرتے کتب خانہ کرائے پر لے کر رات بھر مطالعہ کتب مىں مصروف
رہتے، زندگى کے آخرى اىام مىں فالج کا حملہ ہوا جس کے نتىجے مىں جسم کا کچھ حصہ
ناکارہ ہوگىا لىکن پھر بھى مطالعہ کتب مىں مصروف رہتے اىک دن مطالعہ کتب مىں مشغول
تھے کہ اچانک کتب کا عظىم ذخىرہ ہر طرف سے اوپر آپڑا جس کى تاب نہ لاتے ہوئے عاشقِ
مطالعہ کتب انتقال کر گئے۔ (خلىفہ الزمن از علامہ عبدالفتاح ابو غرہ ص ۳۴)
پىر مہر على شاہ کا مطالعہ :
قبلہ عالم حضرت پىر سىد مہر على شاہ مجدد گولڑوى قدس سرہ
کے متعلق منقول ہے کہ بسا اوقات اىسا ہوتا کہ موسم سرما کى طوىل راتىں عشا ءکى نماز کے بعد مطالعہ مىں ہى گرزرتىں حتى
کہ اسی حالت مىں فجر کى اذان ہوجاتى(مہر منىر ص ۷۹)
محدث اعظم پاکستان کا مطالعہ :
محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے طالبِ علمى
کا زمانہ تھا اور اس وقت آپ کے مادرِ علمى جامعہ رضوىہ مظہر السلام مىں بجلى نہىں
تھى اور نہ ہى محلہ سوداگران برىلى مىں بجلى آئى تھى، دىگر طلبا تو رات کو سوجاتے مگر محدث اعظم
پاکستان رات کو بارہ اىک بجے تک مىونسپل کمىٹى کے لىمپ کے نىچے کھڑے ہو کر اپنا
سباق ىاد فرماىا کرتے تھے، حضرت حجۃ الالسلام مولانا حامد رضا خان کو معلوم ہوا تو
مہتم کو مولانا سردار احمد کے کمرے مىں لىمپ کا انتظام کرنے کا حکم دىا۔(حىات محد
ث اعظم ص ۳۴)
جب دىکھتا پڑھتے دىکھا:
حضرت مفتى اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے
ہىں مىں جب مولاناسردار احمد کو دىکھتا پڑھتے دىکھتا مدرسے مىں قىام گاہ پر حتى کہ
جب مسجد مىں آتے تو بھى کتاب ہاتھ مىں ہوتى، اگرجماعت مىں تاخىر ہوتى تو بجائے
دىگر اذکار واورد کے مطالعہ مىں مصروف ہوجاتے۔(حىات محد ث اعظم)
شائق مطالعہ کى حوصلہ افزائى:
مولانا معىن الدىن شافعى کا بىان ہے: اجمىر شرىف مىں
مولانا سردار احمد کى محنت کا ىہ عالم تھا کہ نماز عشاء کے بعد آپ سامنے کتاب رکھ
کر بىٹھ جاتے اور مطالعہ کرتے ہوئے بسا اواقات فجر کى اذان ہوجاتى، اس محنت و لگن کو دىکھ کر حضور
صدر الشرىعہ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے طباخ( باروچى) کو حکم فرماىا۔ سردار احمد کو
نمازِ مغرب سے پہلے کھانا دے دىا کرو تاکہ اس کے مطالعہ مىں حرج نہ ہو۔(اىضا)