مطالعہ علم کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہےجس کی اہمیت کے پیش نظر بزرگان دین نے اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات کتب بینی میں صرف کیے ہیں۔آج ہمارے لیے اس بات کافیصلہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ جنہوں نے اپنا وقت مطالعہ میں استعمال کیا واقعی وہ لمحات نہ صرف ان کی اپنی زندگی کے لیے مفید ترین ثابت ہوئے بلکہ بعد میں آنے والوں کے لیے مختلف علوم وفنون میں نئی راہیں کھولنے کا سبب بھی بنے۔اسی حقیقت کے پیش نظر ہر اس شخص کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے جسے بڑا مرتبہ ومنصب چاہیے۔علامہ برہان الدین ابراہیم زرنوجی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (المتوفی 610ھ) اپنی کتاب"تعلیم المتعلم طریق التعلم" میں لکھتے ہیں:

تَرُوْمُ الْعِزَّ ثُمَّ تَنَامُ لَیْلًا یَغُوْضُ الْبَحْرَ مَنْ طَلَبَ الَّلآلِی

توعزت کا طلبگارہےاورپھررات کوسوبھی جاتا ہے ارے غافل موتی حاصل کرنے کے لیے پہلے سمندر میں غوطے لگانے پڑتے ہیں۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم ترجمہ بنام راہ علم؛ص40؛المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی)

بطورترغیب وتحریص چندعاشقان مطالعہ بزرگان دین کے واقعات پیش خدمت ہیں تاکہ ہمیں بھی مطالعہ کرنےکا جذبہ ملے:

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا شوق:

پانچویں صدی ہجری کے عظیم بزرگ علامہ جمال الدین عبدالرحمٰن ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے شوق مطالعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:میری طبیعت کتب کے مطالعہ سے کبھی سیر نہیں ہوئی،جب بھی کسی نئی کتاب پر نظر پڑتی تو لگتا جیسے کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہو۔میں نے مدرسہ نظامیہ کے کتب خانہ میں موجود 6ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے۔مجھے جب بھی کوئی کتاب ملتی فوراً اس کا مطالعہ کرنے لگتا۔اگر میں کہوں کہ میں نے 20 ہزار کتب کا مطالعہ کیا تو بظاہر یہ تعداد زیادہ معلوم ہوگی لیکن یہ میری طلب سے کم ہے۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ اس وقت کے طلبہ کی کم ہمتی مجھ پر واضح ہوگی اور مجھے ان کتب کے مطالعہ سے بزرگوں کے اخلاق وحالات،ان کی بلند ہمتیں،مضبوط حافظہ،عبادات کا ذوق اور اعلیٰ علوم کا ایسا خزانہ ملا جوبغیر مطالعہ کے حاصل نہ ہوسکتا تھا۔لہٰذا جو حصول علم دین میں کما حقہ کامیابی پانا چاے وہ کثرت سے مطالعہ کرے بالخصوص بزرگان دین کے حالات زندگی اور ان کی کتب پڑھے کیونکہ ان کی کوئی بھی کتاب فائدے سے خالی نہیں ہے۔ ( صیدالخاطر،-۳۳۸فصل قدماء العلماوھمتھم العالیة،ص،۴۴۸ملخًصابتقدم و تاخر)

امام محمد بن حسن شیبان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نامور شاگرد حضرت سیدنا محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمیشہ شب بیداری فرمایا کرتے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس مختلف قسم کی کتابیں رکھی ہوتی تھیں جب ایک فن سے اکتا جاتے تو دوسرے فن کے مطالعے میں لگ جاتے تھے۔یہ بھی منقول ہے کہ آپ اپنے پاس پانی رکھا کرتے تھے جب نیند کا غلبہ ہونے لگتا تو پانی کے چھینٹے دے کر نیند کو دور فرماتے اور فرمایا کرتے: نیند گرمی سے ہے لہذا اسے ٹھنڈے پانی سے دور کرو۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص10)

امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ استاد صاحب سے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی بلکہ چوتھائی کتاب استاد صاحب سے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام کتاب کا خود مطالعہ کرتے اود یاد کرکے سنادیا کرتے تھے۔اسی طرح دو جلدوں پر مشتمل العقود الدریة جیسی ضخیم کتاب فقط ایک رات میں مطالعہ فرمالی۔(حیات اعلیٰ حضرت،1/70،213)

علامہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

نویں صدی ہجری کے جلیل القدر محدث علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:مطالعہ کرنا میرا شب وروز کا مشغلہ تھا،بچپن میں بھی مجھے کھیل کود اور آرام وآسائش کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا،بارہا ایسا ہوا کہ مطالعہ کرتے آدھی رات ہوجاتی تووالد محترم سمجھاتے:کیا کرتے ہو؟یہ سنتے ہی میں فوراً لیٹ جاتا اور عرض کرتا:سونے لگا ہوں۔کچھ دیر کے بعد پھر اُٹھ کر مطالعہ شروع کردیتا۔بسااوقات دوران مطالعہ سرکے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھوکرجھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مشغولیت کے سبب پتا ہی نہ چلتا۔ (اخبارالاخیارمع مکتوبات،تجلیة القلوب بقدس الملکوت بشرح دعاءالقنوت،ص۳)

محدث اعظم پاکستان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

محدث اعظم پاکستان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب مسجد میں حاضر ہوتے اور نماز باجماعت میں کچھ تاخیر ہوتی تو کسی کتاب کا مطالعہ شروع کردیتے اسی طرح نماز عشاء کے بعد کتب سامنے رکھ کر بیٹھ جاتے اور مطالعہ کرتے،بسااوقات فجر کی اذانیں شروع ہوجاتیں،استاد گرامی صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ٍیہ نے آپ کی اَن تھک محنت دیکھی تو خادم کو ہدایت فرمائی کہ سردار احمد کو نماز مغرب سے پہلے کھانا کھلادیا کروتاکہ مطالعہ میں حرج نہ ہو۔(حیات محدث اعظم۔ص36ملخصاً،رضا فاؤنڈیشن لاہور1425ھ)

مفتی احمدیارخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دوران طالب علمی میں رات مطالعہ کے لیے جو تیل ملتا تھا وہ تقریباً آدھی رات تک چلتا۔چراغ تو بجھ جاتا مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شوق علم کا دیا جلتا رہتا چنانچہ جب مدرسہ کا چراغ گل ہوجاتا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ باہر نکل آتے اور گلی میں جلتے ہوئے بلب کی روشنی میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے میں مصروف ہوجاتے۔(حالات زندگی۔حیات سالک،ص82 ملخصاً)

اللہ کریم ان مخلص عاشقان مطالعہ کی برکات میں سے ہمیں بھی حصہ نصیب فرمائے اورہم بھی اپنے اوقات کو قیمتی بنانے والے بن جائیں۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم