کوئی بھی کام ہو، کوئی بھی شعبہ ہم نے دیکھا ہے سلف صالحین ہم سے بہتر ہی تھے۔ معاشی معاشرتی اخلاقی دینی ہر اعتبار سے ہم سے بہتر تھے۔ مطالعہ کی اہمیت سب جانتے ہیں لیکن انہیں اس کی اہمیت کا اور بھی زیادہ احساس تھا۔ ان میں بعض وہ تھے کہ ایک ایک کتاب کو سو سو پچاس مرتبہ پڑھ لیتے تھے۔ ہر وقت اپنے ساتھ کتاب رکھا کرتے تھے۔ کتاب کو اپنا بہترین رفیق مانتے تھے۔ ہمیں ان کی سیرت کا مطالعہ کرکے اپنے اندر شوق مطالعہ پیدا کرنا چاہیے۔ اسی ارادے سے آئیے چند حضرات کی سیرت کو ملاحظہ کیجیے۔

(1) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں : ایک دن مجلس مذاکرہ میں امام مسلم سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا۔ اس وقت آپ اس حدیث کے بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔ گھر آ کر اپنی کتابوں میں اس کی تلاش شروع کردی۔ قریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا بھی رکھا ہوا تھا، امام مسلم کے استغراق اور اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ کہ کھجوروں کی مقدار کی طرف آپ کی توجہ دہ نہ ہوسکی اور حدیث ملنے تک ک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالی ہوگیا اور غیر ارادی طور پر کھجوروں کا زیادہ کھا لینا ہی ان کی موت کا سبب بن گیا۔( تذكرة المحدثين، ص ١٢٣)

(2) امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کرتے ہیں : دوسرے لڑکے دجلہ کے کنارے کھیلا کرتے تھے اور میں کسی کتاب کے اوراق لے کر کسی طرف نکل جاتا اور الگ تھلگ بیٹھ کر مطالعے میں مشغول ہو جاتا تھا۔ مزید فرماتے ہیں : میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی تھی۔ جب کسی کتاب پر نظر پڑ جاتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ میں نے زمانہ طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا۔ مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات و اخلاق، ان کی اعلی ہمتی، قوتِ حافظہ، ذوق عبادت، اور علوم نادرہ کا ایسا اندازہ ہوا جو ان کتابوں کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنے زمانے کے لوگوں کی سطح پست معلوم ہونے لگی اور اس وقت کے طلبئہ علم کی کم ہمتی منکشف ہوگی۔ میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا جس میں چھ ہزار کتابیں تھیں، اسی طرح بغداد کے مشہور کتب خانے کتب الحنفیہ، کتب الحمیدی، کتب عبد الوہاب وغیرہ جتنے دسترس میں تھے سب کا مطالعہ کر ڈالا۔ (مطالعہ کیا کیوں کیسے؟ ص ٤٠)

(3) علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تذکرۃ الحفاظ جلد 3، صفحہ 114، میں حضرت خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ راہ چلتے بھی مطالعہ کیا کرتے تھے تاکہ آنے جانے کا وقت ضائع نہ ہو۔( علم اور علما کی اہمیت، ص ٢٣)

(4) حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں جب مولانا سردار احمد کو پڑھتے دیکھتا۔ مدرسہ میں، قیام گاہ پر حتی کہ جب مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہاتھ میں ہوتی ۔ اگر جماعت میں تاخیر ہوتی تو بجائے دیگر اذکار و اوراد کے مطالعہ میں مصروف جاتے۔(مطالعہ کیا کیوں کیسے؟ ص ٤٢ )

ہم اتنا تو مطالعہ نہیں کر سکتے لیکن پورے دن میں سے ایک آدھ کھنٹا ہی تو نکال سکتے ہیں۔ یہ بھی نہیں تو بارہ منٹ کم از کم۔ نکال لینے چاہیے۔ یہ بارہ منٹ روزانہ دینا بھی بہت ہوگا۔ اللہ تعالی ہمیں علم دین حاصل کرنے اور مطالعہ کرنے کا ذوق و شوق عطا فرمائے۔آمین!

حدیث مبارکہ :

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "طلب العلم فریضہ علی کل مسلم " یعنی علم کا حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے" ۔حدیث مبارکہ : جو شخص علم کی طلب میں چلتا ہے اس کے لیے فرشتے پر بچھا دیتے ہیں ( بزرگانِ دین کا شوق علم دین)

راہِ علم کا سفر آسان نہیں مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دشواریاں منزل تک پہنچتے میں رکاوٹ نہیں بنتیں ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ بڑے شوق سے علمِ دین حاصل کیا کرتے ، چند حکایات ملاحظہ ہوں۔

امام مسلم کا شوقِ علم:

ایک دن کسی علمی مجلس میں حدیث پاک کی مشہور کتاب مسلم سریف کے مؤلف امام مسلم بن حجاج قشیری علیہ الرحمۃ سے کسی حدیث کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے گھر آکر وہ حدیث تلاش کرناشروع کردی قریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا بھی پڑا ہوا تھا آپ حدیث کی تلاش کے دوران ایک ایک اٹھا کر کھاتے رہے دورانِ مطالعہ امام مسلم کے استقرار اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ کھجوروں کی مقدار کی جانب آپ کی توجہ نہ ہوسکی اورسارا ٹوکرا خالی ہوگیا غیر ارادی طور پر زیادہ کھجوریں کھانے کی وجہ سے آپ بیمار ہوگئے اور اسی مرض میں آپ کا انتقال ہوگیا( تہذیب التہذیب ج ۸، ص ۱۵۰ مطبوعہ بیروت)

اعلیٰ حضرت کا شوق علم:

اعلیٰ حضرت مجدددین و ملت شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے شوق مطالعہ اور ذہانت کا بچپن ہی سے یہ عالم تھا کہ استاذسے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی بلکہ استاذ سے پڑھنے کے بعدبقیہ تمام کتاب کا خود مطالعہ کرتے اور یاد کرکے سناد یا کرتے اسی طرح دو جلدوں پر مشتمل "العقود الدریہ" جیسی ضخیم کتاب ایک رات میں مطالعہ فرمالی (حیات اعلیٰ حضرت ج۱، ص ۷۰تا۲۱۳ مطبوعہ مکتبہ المدینہ باب المدینہ کراچی)

مقبول جہاں بھر میں ہو دعوت اسلامی

صدقہ تجھے اے ربِ غفار مدینہ کا

حضرت ایوب انصاری،امام شیبانی کا شوق مطالعہ :

حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ سے مصر کا سفر اختیار اس لیے کیا کہ حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث سنیں، حضرت امام شیبائی علیہ الرحمہ ہمیشہ شب بیدار کیا کرتے تھے آپ مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ جیسے آپ کو نیند آنے لگتی تو منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے تاکہ نیند ختم ہوجائے، آپ کو مطالعہ کا اس قدر شوق تھا کہ آپ نے رات کے تین حصے کیے تھے ایک عبادت کا حصہ ایک مطالعہ کا اور ایک حصہ آرام کا تھا۔

عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کو شوق مطالعہ :

حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی اس قدر شوق سے مطالعہ کرتے تھے کہ دوران مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھو کر جھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مگن ہونےکی وجہ سے آپ کو پتا ہی نہیں چلتا۔

امیر اہلسنت کا شوق مطالعہ :

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کو مطالعہ کا اس قدر شوق ہے کہ آپ نے اپنے گھر میں ایک کتاب (کتب خانہ)

بنایا اور اس میں سیکڑوں کتابیں اپنے علم کے گوہر و نایاب سائے ہوئے ہیں
افسوس جہاں آج کل دور اسلاف کی اور بہت سے واقعات مٹتے جارہے ہیں وہیں مطالعے کا شوق بھی ناپید ہوچکا ہے ، بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں چو اپنے قیمتی وقت کی قدر کرتے ہیں اور دینی مطالعہ کرتے ہیں

سوشل میڈیا میں گم ہو کر لوگ اپنا بہت ہی زیادہ وقت ضائع کررہے ہیں، دعوت اسلامی جہاں اور بہت کچھ عطا کررہی ہے وہیں امیر اہلسنت ہر ہفتے ایک رسالہ بھی عطا کررہے ہیں۔

راہِ علم کا سفر آسان نہیں مگر شوق کی کشتی پاس ہو تو طوفان بھی منزل تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتے، ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بڑے ذوق وشوق اور لگن کے ساتھ علمِ دین حاصل کیاکرتے تھے ، چند بزرگانِ دین کاشوق مطالعہ تحریر کرتی ہوں۔

سوتے جاگے سینے پر کتاب :

حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے چالیس سال اس طرح گزرے کہ سوتے جاگتے میرے سینے پر کتاب رہتی ہے(جامع بیان العلم ص ۱۲۳۱، رقم ۲۳۲۶)

کتاب خود مکمل پڑھ لیتے :

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کاشوق مطالعہ بچپن ہی سے یہ عالم تھا کہ استاذ سے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی ایک چوتھائی کتاب استاذسے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام خود مطالعہ کرتے (حیات اعلیٰ حضرت ج ۱، ص ۲۰)

ہمیشہ پڑھتے دیکھا:

محدث اعظم پاکستان کے متعلق مولانا احمد رضا خان رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ کو جب بھی دیکھتا پڑھتے دیکھتا، مدرسے میں قیام گاہ پر حتی کہ جب مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہاتھ میں ہوتی اگر جماعت میں تاخیر ہوتی تو بجائے دیگر اذکار اوراد کے مطالعہ میں مصروف ہوجاتے (حیات محدث اعظم، ص۴۲)

مطالعہ کے بغیرایک لمحہ بھی ضائع کرنا حلال نہیں :

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے علی بن عقیل کی ایک تحریر دیکھی جس میں لکھا تھا بے شک میرے بیٹے یہ حلال نہیں کہ اپنی عمر کا ایک لمحہ بھی ضائع کروں یہاں تک کہ میری زبان کی قوت گویائی ختم ہوجائے میری آنکھیں مطالعہ سے قاصر ہوجائیں ( مفتیان امام غزالی ص۲۴)

مطالعہ میں مگن:

شاہ عبدالحق دہلوی کے بسا اوقات دورانِ مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھو کر جھلس جاتے لیکن آپ کو مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے پتا نہ چلتا، (اشعۃ اللمعات ج ۱، مقدمہ ص۷۲)

نیند کے غلبے کی وجہ سے رات کو پانی کی چھینٹے مارنا :

امام محمد شیبان اپنے پاس پانی رکھا کرتے تھے جب نیند کا غلبہ ہونے لگتا تو پانی کی چھینٹے دے کر نیند کو دور فرماتے ( تعلیم متعلم طرف القلیم ۱۰)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہمیں شوق مطالعہ نصیب فرما ۔ امین

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طلب علم:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ وسلم علیہ کا ظاہری وصال ہوا تو میں ایک انصاری دوست کے پاس گیا اور ان سے کہا ابھی الحمدللہ بڑے بڑے صحابہ کرام موجود ہیں چاہیے کہ ان سے علم حاصل کریں ورنہ ان کے بعد لوگ ہم سے مسائل پوچھیں گے اور ہمیں علم نہ ہوگا تو مشکل ہوگی انصاری دوست پرتواضع کا غالبہ تھا۔انہوں نے کہا کہ آپ بھی عجیب بات کرتے ہیں کہ ایسا بھی کوئی زمانہ آئے گا کہ لوگوں کو ہماری بھی ضرورت پڑے گی۔ ابن عباس فرماتے ہیں ان کے یہ کلمات سن کر میں ان کو ان کے حال پر چھوڑا اور خود طلبِ علم کے لیے نکل پرتا جس صحابی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مجھےمعلوم ہوتا کہ ان کے پاس کچھ حدیث کا علم ہے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتا اور اس کو حاصل کرتا۔

بعض اوقات مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں بزرگ حدیث کی روایت کرتے ہیں تومیں ان کے دروازے پر حاضر ہوجاتا معلوم ہوتا کہ وہ قیلولہ یعنی آرام فرما رہے ہیں تو میں ان کے دروازے پر ہی اپنی چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا تھا، ہوا سے تمام گرد و غبار میرے چہرے اور کپڑوں کو لگ جاتا تھا یہاں تک کہ وہ بزرگ میرے پاس تشریف لاتے اور مجھے اس حال میں دیکھ کر فرماتے اے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بھتیجے آپ نے یہ کیا کیا ہے؟

آپ کوئی آدمی بھیج کر مجھے بلالیتے میں حاضر ہوجاتا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندانی اعزاز اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی قرابت اور عنایات سے حاصل شدہ عزت کو طلب علم کے راستے میں اس طر ح نظر انداز کیا کہ عاجزانہ اور عامیانہ انداز میں در در پھر کر علم حاصل کیا۔

ابن عباس فرماتے ہیں:

گویا علم ایسی عزت ہے کہ اس میں ذلت کا نام نہیں ہے مگر حاصل ایسی ذلت اور شفقت سے ہوتا ہے کہ اس میں عزت کا نام نہیں اسی والہانہ جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت صحابہ میں آپ کا لقب خیر الامت پڑاْ

حکایات

امام بخاری علیہ الرحمہ سے کون واقف نہیں وہ طالبِ علم کے سفر میں تین دن متواتر کھانا نہ منے پر جنگل کی بوٹیاں کھاتے تھے۔(مقدمہ شرح بخاری)

راہِ علم کا سفر آسان نہىں مگر شوقِ کى سوارى پاس ہو تو دشوارىاں منزل تک پہنچنے مىں رکاوٹ نہىں بنتىں، ہمارے بزرگانِ دىن رحمہم اللہ المبین بڑے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ علم دىن حاصل کىا کرتے تھے۔

چند بزرگانِ دىن کا شوق مطالعہ ملاحظہ فرمائىے:

شىخ عبدالحق کا شوق مطالعہ :

شىخ عبدالحق محدث اپنى کتب بىنى کا حال بىان کرتے ہوئے فرماتے ہىں: مطالعہ کرنا مىرا شب و روز کا مشغلہ تھا، بچپن ہى سے ىہ ہال تھا کہ مىں نہىں جانتا کہ کھىل کود کىا ہے؟ آرام و آسائش کے کىا معنى ہىں، سىر کىا ہوتى ہے، بارہا اىسا ہوا کہ مطالعہ کرتے کرتے آدھى رات ہوگئى تو والد محترم سمجھاتے، بابا کىا کرتے ہو؟ ىہ سنتے ہى فورا لىٹ جاتا اور جواب دىتا، سونے لگا ہوں، پھر جب کچھ دىر گزرتى تو اٹھ کر بغىر مطالعہ کرنے لگ جاتا، بسا اوقات دورانِ مطالعہ مىرے سر کے بال اور عمامہ وغىرہ چراغ سے جھلس کر جل جاتے، مگر مجھے مطالعہ کرتے ہوئے پتا ہى نہ چلتا۔

(اشعۃ اللمعات جلد اول مقدمہ ص ۷۲، مطبوعہ فرىد بک اسٹال)

مفتى دعوت اسلامى کا شوق مطالعہ :

مفتى دعوت اسلامى اکثر مطالعے مىں مشغول رہا کرتے اور اپنى وفات سے قبل بھى دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد کسى کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، آپ نے فتاوىٰ رضوىہ اور بہار شرىعت کا مکمل مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ فتاوىٰ رضوىہ سے حاصل ہونے والے مدنى پھول بھى جمع کررکھے تھے۔(مفتى دعوت اسلامى ص ۴۳،مطبوعہ کتب مکتبہ المدىنہ کراچى)

مفتى دعوت اسلامى اپنى جىب مىں ہر وقت امىر اہلسنت دامت برکاتہم العالىہ کا کوئى نہ کوئى ر سالہ رکھتے اور فارغ اوقات ملتے ہى وہ رسالہ نکال کر پڑھنا شروع کردىتے۔

پىر مہر على شاہ کا شوق مطالعہ :

پىر مہر على شاہ کو پڑھنے کا اس قدر شوق تھا کہ بسا اوقات موسمِ سرما کى طوىل راتوں مىں عشاء کى نماز کے بعد مطالعہ کرنے بىٹھتے تو پڑھتے پڑھتے فجر کى اذان ہوجاتى۔ (مہر منىر ص ۲۰ ملخصا)

محدث اعظم کا شوق مطالعہ:

محدث اعظم پاکستان حضرت سردار احمد قادرى کو مطالعے کا اتنا شوق تھا کہ نماز باجماعت مىں کچھ تاخىر ہوتى تو کسى کتاب کا مطالعہ شروع کردىتے،(سىرت صدر الشرىعہ ۲۰۱ مکتبہ البىروت)

اعلىٰ حضرت کا شوق مطالعہ:

اعلىٰ حضرت کے شوق مطالعہ اور ذہانت کا بچپن ہى مىں ىہ عالم تھا کہ استا ذ سے کبھى چوتھائى کتاب سے زىادہ نہىں پڑھى بلکہ چوتھائى کتاب استاذسے پڑھنے کے بعد بقىہ تمام کتاب کا خو د مطالعہ کرتےاور ىاد کرکے سنا دىا کرتے اسى طرح دو جلدوں پر مستقل العقود الدرىۃ جىسى ضخیم کتاب فقط اىک رات مىں مطالعہ فرمالى۔(حىات اعلىٰ حضرت ج ۱، ص ۲۴ مکتبہ المدىنہ کراچى)

امام محمد شىبانى کاشوق مطالعہ :

آپ ہمىشہ شب بىدارى فرماىا کرتے اور آپ کے پاس مختلف قسم کى کتابىں رکھى ہوتى تھىں جب اىک فن سے اکتا جاتے تو دوسرے فن کے مطالعہ مىں لگ جاتے آپ کو مطالعہ کا اتنا شوق تھا کہ رات کے تىن حصے کرتے، اىک حصہ مىں عبادت اىک حصے مىں مطالعہ اور بقىہ اىک حصہ مىں آرام فرماتے تھے،(تارىخ بغداد ج ۲، ص ۱۲۰ دارالکتب اعلىٰ حضرت)

یہ دنیا بہت بڑی ہےاس میں بہت سے نامور،قابل اور مقبول انسان گزرے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ان کی کامیابی کا ایک راز شوقِ مطالعہ تھااور یہ بات آپ جانتے ہیں کہ بعض انسان ایسے ہوتے ہیں کہ جب دنیا میں آتے ہیں تو جہالت اور لاعلمی لیکر آتے ہیں لیکن جب یہاں سے کوچ کرتے ہیں تو اپنے ذوقِ مطالعہ کے مطابق ہمیشہ کے لیے تاریخ کے روشن صفحات پر اپنےنقوش درج کروا جاتے ہیں؛یقیناًراہِ علم کا سفر آسان نہیں مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دُشواریاں منزل تک پہنچنے میں رُکاوٹ نہیں بنتیں۔ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ ا بڑے ذوق وشوق اورلگن کے ساتھ علمِ دین حاصل کیا کرتےتھے جیسا کہ درج ذیل مثالوں سے واضح ہورہا ہے:

1۔ایک مرتبہ )صحیح مسلم کے مصنف(امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی حدیث کے بارے میں پوچھاگیاتو آپ نےاُس حدیث کوتلاش کرنا شروع کر دیااور ساتھ ساتھ ٹوکرے سے کھجوریں بھی کھاتےرہے،مطالعے میں اتنے ڈوبے ہوئے تھےکہ کھجوروں کا پتا ہی نہ چلااور حدیث ملنے تک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالی ہوگیا ؛غیر ارادی طور پر اتنی زیادہ کھجوریں کھالینے کے سبب آپ بیمار ہوگئے اور اسی مرض میں آپ کا انتقال ہوگیا۔(تھذیب التھذیب ج۸،ص:۱۵۰)

2۔امام محمد رحمۃ اللہ علیہمطالعے کے لیے شب بیداری فرمایا کرتے تھےاورمنقول ہے کہ آپ اپنے پاس پانی رکھا کرتے تھے جب نيند کا غلبہ ہو نے لگتا تو پانی کے چھينٹے مار کرنيند کو دور فرمادیتے ۔(تعلیم المتعلم ص:۱۰)

3۔شیخ ِمُحقق شیخ عبدُالحق محدث ِدِہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کُتُب بینی کا حال ارشاد فرماتے ہیں کہ مطالعہ کرنا میرا شب وروز کا مشغلہ تھا ،بسا اوقات یوں بھی ہوتا کہ دوران ِ مطالعہ قریب جلتے ہوئے چراغ سے سر کے بال اور عمامہ جل جاتا لیکن مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے پتہ نہ چلتا ۔ (اشعۃ اللمعات مقدمہ ص:۷۲)

4۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن کے شوقِ مطالعہ کا بچپن ہی میں یہ عالم تھا کہ اُستاذسے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی بلکہ چوتھائی کتاب استاذسے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام کتاب خود مطالعہ کرکے استاد کو زبانی سنا دیا کرتے تھے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،ج۱،ص۲۱۳)

5۔پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ موسِمِ سرما کی طویل رات مطالعے میں گزر جاتی حتی کہ اذانِ فجرہوجاتی۔ )مطالعہ کیاکیوں اور کیسےص41(

6۔محدِّث ِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ علیہ کو مطالعے کا اتنا شوق تھا کہ نمازِ باجماعت میں کچھ تاخیر ہوتی تو کسی کتاب کا مطالعہ کرنا شرو ع کر د یتے ۔ ) تذ کرہ امیرِ اہلسنت قسط :4(

7۔اوراگر بات کریں امیرِ اہلِسنت مولانا الیاس قادری کی تو آپ کے شوقِ مطالعہ کا تویہ عالم ہے کہ آپ اس قدر منہمک ہوکر مطالعہ فرماتے ہیں کہ بارہا ایسا ہواکہ کوئی اسلا می بھائی پاس آکر کھڑا ہوجاتاتو آپ کو معلوم ہی نہ ہوتا۔آپ نہ صرف خود مطالعے کا شوق رکھتے ہیں بلکہ اپنے مریدین ومحبین کو بھی دینی کُتُب بالخصوص فتاوٰی رضویہ ،بہارِ شریعت ، تمہیدُالایمان ،منہاجُ العابدین اوراِحیاء العلوم وغیرہ کے مطالعہ کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں ۔)تذکرہ امیرِ اہلسنت قسط :4(

اللہ پاک ہمیں بھی ان بزرگانِ دین کے صدقے ورق گردانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

سب سے پہلے تو کتابیں پڑھنے سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بات پر آپ یقیناً سوچیں گے کہ یہ سب معلومات تو انٹرنیٹ سے بھی ایک کلک پر میسر ہیں تو پھر کتاب ہی کیوں؟ تو جناب اس کا جواب یہ ہے کہ کتاب وہ ذریعہ معلومات ہے جو سال ہا سال آپ کے پاس محفوظ رہتی ہے۔ آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں اسے پڑھ سکتے ہیں۔ نہ انٹرنیٹ کنکشن کا مسئلہ نہ بجلی آنے جانے کا ڈر۔

دوسری بات یہ کہ کتابیں نہ صرف آپ کی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ آپ کے تخیل کی پرواز کو بھی بلند تر کرتی ہیں۔ ذرا سوچیے کہ آپ ’’موئن جو دڑو‘‘ کے بارے میں کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں؛ اور چشمِ تصور میں آپ اس کے گلی کوچوں کی سیر کررہے ہیں تو کتنا مزہ آتا ہے۔ یقین مانیے کہ گزرے زمانوں کی تہذیبوں٬ ان میں بسنے والے لوگوں کے بارے میں جاننے اور ان کے رہن سہن کے طور طریقوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ مطالعے کا شوق جہاں آپ کو دیس دیس کی سیر کرواتا ہے وہاں گفتگو کےلیے آپ کو بےشمار موضوعات بھی فراہم کرتا ہے اور آپ لگے بندھے موضوعات سے ہٹ کر بھی دوسرے موضوعات پر بات کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ جیسے کہ تاریخ، جغرافیہ، سیاست، آثارِ قدیمہ وغیرہ۔ یہ نہیں کہ جیسے آج کل کا رواج بن گیا ہے کہ لوگوں کو بس اتنی ہی معلومات ہیں جو وہ مارے باندھے اسکول کالج میں پڑھ لیتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کسی موضوع پر بات کرو تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔

آخر میں بس یہ ہی کہوں گا کہ برائے مہربانی کنویں کے مینڈک بنے نہ رہیے، اس کنویں سے باہر نکلیے اور دنیا کو ایکسپلور کیجیے۔ اتنی حسین دنیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہی بنائی ہے۔ اس کے بارے میں جانیے اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آج کل کتابیں مہنگی ہوگئی ہیں تو جس طرح آپ دوسری چیزوں کےلیے بجٹ بناتے ہیں، کتابوں کےلیے بھی بجٹ بنائیے۔ سال میں کم از کم ایک کتاب ضرور خریدیئے اور زیادہ نہیں تو روزانہ صرف ایک صفحہ کسی کتاب کا ضرور پڑھیے۔

یقین جانیے کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب آپ کو کتاب پڑھے بغیر نیند نہیں آئے گی۔


علم اىسى لازوال دولت ہے جس کے ذرىعے بندہ اللہ کى معرفت، اس کى عظمت و کبرىائى اور اس کى ہىبت کى پہچان حاصل کرتا ہے، حصولِ علم کا اىک بہترىن ذرىعہ مطالعہ بھى ہے، امام زہرى ہوں ىا امام بخارى، امام شافعى کى بات کى ہو ىا ىا امام بن جوزى علیہ الرحمۃ کى، ان کو علمى کمالات کى بنىاد مطالعہ کى ہى کثرت تھى کہ اىک اىک کتاب کو سو سو بار پڑھتے اور کئى کئى برس دىکھتے تھے۔

ہمارے اسلاف کو کتابوں سے جنون کى حد تک عشق تھا، اور مطالعہ کا نشہ نہ صرف دل و دماغ بلکہ نس نس مىں سماىا ہوا تھا حصرت حسن بصرى علیہ الرحمۃ نے فرماىا مىں نے چالىس سال اس طرح گزارے کہ سوتے وقت اور بىدار ہوتےوقت مىرے ہاتھ مىں کتاب ہوتى تھى،(مطالعہ کىوں کىا کىسے ص ۳۷)

امام شافعى علیہ الرحمۃکا حصول علم کا حرص :

امام شافعى علىہ الرحمۃ سے درىافت کىا گىا کہ علم کے لىے آپ کى حرض کتنى ہے؟ فرمانے لگے ، سخت بخىل آدمى کو جتنى مال کى حرص ہوتى ہے پھر پوچھا گىا علم کى طلب مىں آپ کى کىفىت کىا ہوتى ہے؟ فرماىا: گمشدہ اکلوتے بىٹے کى ماں کى اپنے بىٹے کى طلب مىں جو کىفىت ہوتى ہے (وقت ہزار نعمت ہے)

حضرت امام شرف نووى علیہ الرحمۃ کى علمى مصروفىت:

ان کى علمى مصروفىات اس قدر تھىں کہ ان کو شادى کا موقع بھى نہ مل سکا، نىز ىہ تصنىف و تالىف مىں اس قدر مشغول رہتے کہ ان کى ماں انہىں کھلاتى رہتى تھىں، مصروفىات کى کثرت کے باعث انہىں کھانے پىنے تک کا خىال نہ رہتا تھا۔ (وقت ہزار نعمت ہے، ص ۱۰۴)

علامہ ابن جوزى علیہ الرحمۃ کا علمى اشتىاق:

ىہ خود فرماتے تھےکہ مىرى طبىعت کتابوں کے مطالعے سے کسى طرح سىرنہىں ہوتى، مىں نے مدرسہ نظامىہ کے کتب خانہ مىں موجود چھ ہزار کتابوں کا مطالعہ کىا ہے۔(مطالعہ کىوں کىا کىسے ص ۴۰)

حصرت عبدالعزىز محدث دہلوى رحمۃ اللہ علیہ کا شغف مطالعہ ان کا مطالعہ کے بارے مىں آتا ہے کہ ان کے کتب خانہ مىں کوئى پندرہ ہزار کتابىں تھىں، ان سب کا آپ نے مطالعہ کرنے ڈالا تھا۔(ص ۱۰۹، وقت ہزار نعمت ہے)

شىخ عبدالحق محدث دہلوى رحمۃ اللہ تعالىٰ علیہ کا ورقِ مطالعہ :

ان کے مطالعہ کتب مىں انہماک کا ىہ عالم تھا کہ ىہ خود فرماتے ہىں، مىں رات کو مطالعہ مىں اس قدر مستغرق ہوتا تھا کہ کئى مرتبہ مىرى دستار اور بالوں مىں چراغ سے آگ لگ جاتى اور مجھے اس وقت پتا چلتا جب کہ حرارت دماغ کو محسوس ہوتى۔(فضائل علم و علما ص ۱۹۲)

پىارے اسلامى بھائىو، آپ نے اسلاف و بزرگانِ دىن کے ذوق مطالعہ کو ملاحظہ کىا، لہذا ہمىں بھى چاہىے کہ مطالعہ کى عادت بنائىں اور اس کے فوائد و برکات سے مستفىد ہوں۔

مغفرت کا سبب:

سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مغفرت کے اسباب میں سے ایک سبب بھوکے مسلمانوں کو کھانا کھلانا ہے۔

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے۔اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍۙ(۱۴) ترجمہ کنز الایمان : یا بھوک کے دن کھانا دینا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں آپ سوچ رہیں ہوں گے کہ مضمون ہے بزرگانِ دین کا شوق مطالعہ اور میں نے مغفرت کے متعلق لکھا، لیکن میں نے مغفرت کے متعلق جو لکھا اس سے مغفرت کا ایک سبب آپ کو معلو م ہوا لیکن آپ اس بات پر غور کریں کہ آپ کو ایک اور سبب کیسے معلوم ہوا؟ میرا مطلب یہ ہے کہ پس یہ مطالعہ کرنے سے حاصل ہوا تو اس سے مطالعہ کی اہمیت روز روشن کی طرح عیا ں ہوگئی اور اس کی اہمیت کو ہمارے بزرگانِ دین بخوبی جانتے تھے اور ان کے شوق مطالعہ کی ایک طویل فہرست ہے۔چلئے ہم ایک پیاری دینی شخصیت کے مطالعے کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔

امیر اہلسنت کا شوقِ مطالعہ :

امیر اہلسنت کہتے ہیں کہ لڑکپن یا بچپن کا واقعہ ہے کہ ہم باب المدینہ کے اندر گو گلی اولڈ ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے محلے کی مسجد میں ایک پیارے عالم دین تھے جو عشا کی نماز کے بعد ایک یا دو مسئلے بتاتے تھے ، ایک دن ایک سائل نے عالمِ صاحب سے سوال کیا تو انہوں نے بہار شریعت لانے کا حکم دیا جب ایک کتاب ان کو دی گئی تو اس پر جلی حروف سے بہار شریعت لکھا تھا مجھے اس وقت خاص پڑھنا تو نہیں آتا تھا لیکن جگہ جگہ پر مسئلہ لکھا تھا، مسائل سن کر مجھے سکون ملتا تھا تو میں نے چاہا کاش یہ مجھے مل جائے ، لیکن اس وقت نہ مجھے یہ پتا تھا کہ کہاں سے ملتی ہے اور نہ اتنے پیسے تھے کہ خریدسکون پھر ایک دن وہ آیا جب مجھے خریدنے کی توفیق ملی اور پھر میں نے بہار شریعت سے وہ فیوض و برکات حاصل کیے کہ بیان سے باہر ہیں، مجھے اس کتاب کی برکات سے معلومات کا وہ انمول خزانہ ہاتھ آیا کہ میں آج تک اس کے گُن گاتا ہوں، پھر امیر اہلسنت اس طرح منہمک ہو کر مطالعہ کرتے کہ بارہا ایسا ہوا کہ کتاب گھر کے اسلامی بھائیوں میں سے کوئی اسلامی بھائی کسی مسئلے کے حل کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن مطالعہ میں مصروف ہونے کی بنا پر آپ کو اس کی آمد کی خبر نہ ہوئی اور کچھ دیر بعد اتفاقا نگاہ اٹھائی تو اس اسلامی بھائی نے اپنامسئلہ عرض کیا آپ نہ صرف خود مطالعے کا شوق رکھتے ہیں بلکہ اپنے مریدین و متوسلین اور محبین کو بھی دینی مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

پہلافائدہ :

اس سے ایک سبق تو ہمیں یہ ملا کہ جب بندہ کچھ کرنا چاہے تو وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور تب تک کوشش کرتا ہے جب تک اسے حاصل نہ کرلے جیسے ہمارے پیارے امیر اہلسنت مولاناالیاس قادری دامت برکاہتم العالیہ اور جو کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے وہ بہانا بناتے اور کچھ بھی نہیں کرتے جیسے ہمارے معاشرے کا علمیہ ہے کہ جب انہیں کہا جاتا کہ طالعہ کرلیں تو ان شا اللہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں اس کے منفی اثرات آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ناواقفیت کی وجہ سے ایک تعداد لالچ ، فراڈ، دھوکے ، خیانت اور جھوٹ وغیرہ میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے آج ہم بے شمار مشکلات کا شکار ہیں جیسے بے سکونی مہنگائی ، وقت اور مال میں برکت کا نہ ہونا اور اولاد کا نافرمان ہونا وغیرہ۔

دوسرا فائدہ :

امیر اہلسنت نےعلم حاصل کیا مطالعہ سے پھر اسے پھیلایا تو آج ہمیں دعوت اسلامی جیسی پیاری تحریک دی جس سے ہمیں علم حاصل کرنا، اس پر عمل کرنا اور اسے پھیلانا ور کتابیں خریدنا بہت بہت آسان ہوگیا ہے کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ امیر اہلسنت نے کھا کہ مجھے کتاب کی دوکان کا نہ پتا ہے اور نہ ہی پیسے تھے لیکن ان کی پیاری تحریک نے مکتبہ المدینہ اور مجلس تقسیم رسائل بنا کر کتابیں اور رسائل حاصل کرنا بہت بہت آسان ہوگیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جن کے پاس زیادہ سہولتیں ہوئیں پھر بھی انہوں نے نفع نہ اٹھایا اور جنہیں کم سہولتیں ملیں انہوں نے بے مثال اور بے شمار کارنامے سر انجام دیئے

تیسرا فائدہ :

کہ مسلسل کوشش کرنی چاہیے ہم ایک تعداد کو دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ حاصل نہیں کرپاتے اس کی وجہ ڈھونڈی جائے تو یہی پتا چلتا ہے کہ وہ مسلسل کوشش نہیں کرتے بلکہ وہ جب ناکام ہوجاتے ہیں کسی کام میں تو وہ اس کام کو چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کچھ حاصل نہیں کرپاتے

حاصل گفتگو:

ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے اور نا شکری نہیں کرنی چاہیے اور مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہیے اور شکر ادا کرنے کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے چوبیس گھنٹے میں تھوڑا وقت نکال کر ضرور ضرور مطالعہ کریں پھر یاد کریں اور پھر اسے پھیلائیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائیں اللہ تعالیٰ ہمیں بزرگانِ دین کے شوق مطالعہ کے صدقے ہمیں مطالعہ کا شوق عطا فرمائے۔

فرضی حکایت:

ایک مرتبہ عدنان بھائی جامعہ کی چھٹی پر گھر واپس آرہے تھے اور بڑے ہی مایوس مرجائے ہوئے تھکے تھکے سے معلوم ہوتے تھے کہ اچانک ان کی نظر اپنے ماضی کے بہت گہرے دوست یاسر بھائی پر پڑی، ان کو دیکھ کر ان کی مرجھائی ہوئی طبیعت کھلکھلا اٹھی اور مسکراتے ہوئے ان سے ملاقات کرنے کے لیے آگے بڑھے، اور بڑی گرم جوشی سے ملاقات کی اور ایک دوسرے کے حال احوال دریافت کرنے لگے آگے یہ دونوں ہی جامعۃالمدینہ میں درس نظامی کر رہے تھے اور درجہ اولی میں ایک ساتھ پڑھتے تھے مگر فی الحال یاسربھائی درجہ خامسہ میں اور عدنان بھائی درجہ رابعہ میں پڑھ رہے تھے . اتنے میں یاسر بھائی نے عدنان بھائی سے پوچھا عدنان بھائی ! اور سناؤ آپ کی جامعہ کی پڑھائی کیسی چل رہی ہے ؟ عدنان بھائی سر جھکاتے ہوئے کہنے لگے: مت پوچھو ! میں اب پہلے کی طرح پڑھنے والا نہ رہا اب میرا مطالعہ بھی بہت کمزور ہے،اور دل سے مطالعہ کا شوق بھی نکلتا چلا جارہا ہے .

عدنان کہتے ہیں : اپنے بارے میں سنایں سنا ہے آپ نے حال ہی میں پاکستان میں ٹاپ ٹین میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی ہے؟

یاسر بھائی کہتے ہیں : جی ہاں یہ سب میرے استاد کرام کی محنت و شفقت کا نتیجہ ہے لیکن عدنان بھائی ! پہلے درجہ اولی میں آپ بہت اچھا پڑھتے تھے، اب آپ کو کیا ہوگیا !لگتا ہے آپ بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ نہیں کرتے ، اور شوق مطالعہ کے واقعات نہیں پڑھتے ،آپ کو چاہیے کہ آپ بزرگان دین کی سیرت اور ان کے مطالعہ کو پڑھیں ! اللہ نے چاہا تو آپ میں بھی مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہو گا اور اچھے عالم دین بن کر معاشرے کی اصلاح کر سکیں گے.

عدنان بھائی کہتے ہیں: ماشاءاللہ اپ کی گفتگو نے مجھے بہت ڈھارس دی ہے ورنہ میں تو مایوس سا ہو گیا تھا یاسر بھائی آپ ہی بزرگان دین کے شوق مطالعہ پر چند واقعات سنائیں جسے سن کر میں بھی اپنی تاریخ دل میں مطالعہ کے چراغ کو روشن کر سکوں.

یاسر بھائی کہتے ہیں: کیوں نہیں میں آپ کو شوق مطالعہ کا ایک حیرت انگیز واقعہ سناتا ہوں چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ مجلس مذاکرہ میں امام مسلم سے ایک حدیث کے بارے میں استفسار کیا گیا اس وقت آپ کو اس حدیث کے بارے میں معلوم نہ تھا پھر آپ گھر آکر اپنی کتابوں سے اس حدیث کی تلاش شروع کر دی دی قریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا رکھ دیا امام مسلم کے مطالعے میں استغراق وانہماک کا یہ عالم تھا کے مطالعہ کرتے کرتے ساری کھجوریں کھا لیں اور غیر ارادی طور پر کھجوروں کا زیادہ کھا لینا ہیں آپ کی موت کا سبب بنا .

(تذکرہ المحدثین غلام رسول سعیدی ص 213)

تو دیکھا ہمارے بزرگان دین مطالعہ میں اتنا منہمک ہو تے ہیں کہ دوسری کسی چیز کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی, اسی طرح کا عجیب و غریب واقعہ ، خاتم المحدثین علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا ہے خد فرماتے ہیں کہ مطالعہ کرنا میرا شبہ روز کا مشغلہ تھا بچپن میں بھی مجھے کھیل کود آرام واسائش کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا ، بارہاایساہوا کہ مطالعہ کرتے آدھی رات ہو جاتی تو والد محترم سمجھایاکرتے ،کیاکرتےہو؟ یہ سنتے ہی میں فورا لیٹ جاتا اور عرض کرتا سونے لگا ہوں،! کچھ دیر بعد پھر اٹھ کر مطالعہ کرناشروع کرتا، بسا اوقات دوران مطالعہ سر کےبال، عمامہ، وغیرہ چراغ سے چھوکر جھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مشغولیت کے سبب پتہ ہی نہ چلتا . (اصلاح کے مدنی پھول صفحہ306) ۔

کئی ہزار کتابوں کا مطالعہ:

علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں میں اپنا حال عرض ذکر کرتا ہوں میری طبیعت مطالعہ سے کبھی سیر نہیں ہوتی جب بھی کوئی نئی کتاب پر نظر پڑ جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا خزانہ مل گیا ہوں، اگر میں کہوں کہ میں نے دورہ طالبِ علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو یہ بظاہر تو زیادہ معلوم ہوگا مگر میرے لیے یہ کم ہی ہے مزید فرماتے ہیں میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا جس میں چھ ہزار کتابیں تھیں، اس کے بعد بغداد کے مشہور کتب خانے کتب حنفیہ، کتب حمیدی ،کتب عبدالوہاب، کتب ابی محمد، جتنے کتب خانے میری دسترس میں تھے سب کا مطالعہ کر ڈالا.

عدنان بھائی علامہ جوزی کا شوق مطالعہ دیکھیں کہ اپنے مدرسے کی لائبریری کی کتابوں کا ایک ایک صفحہ پڑھ لینے کے بعد جب مطالعے کی پیاس نہ بجھی تو بغداد کے دوسرے کتب خانے کی طرف مراجعت کی اور آہستہ آہستہ ان کو بھی پڑھ لیا.

عدنان بھائی آخری بات امام شافعی کی کرتے ہیں کہ جس میں انہوں نے اپنے اندر مطالعہ کے شوق کے راز کو بیان فرمایا چنانچہ کسی نے پوچھا کہ علم کے ساتھ اپ کی محبت کیسی ہے ؟ کہنے لگے :جب کوئی نئی بات سنتا ہوں تو میرے جسم کا ہر عضو اس کے سننے سے لطف اندوز ہوا کرتا ہے. پھر دریافت کیا گیا علم کے لئے آپ کی حرص کتنی ہے؟ فرمانے لگے: سخت بخیل آدمی کو جتنی مال کی حرص ہوتی ہے. پھر پوچھا علم کی طلب میں آپ کی کیا کیفیت ہوتی ہے ؟ فرمایا گمشدہ بیٹے کی طلب میں اس ماں کی جو کیفیت ہوتی ہے.( وہی کیفیت میری بھی ہوتی ہے )

یاسر بھائی کہتے ہیں: ہم سب کو چاہیے کہ ہم بھی اپنے اندر مطالعہ کے شوق کو پیدا کریں اور امام شافعی کے بیان کردہ جوابات پر غور کریں اور اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کریں تو ان شاءاللہ عزوجل ہم بھی مطالعے کے شوقین بن سکتے ہیں.

اللہ عزوجل بزرگان دین کے شوق مطالعہ کے صدقے میں ہمیں بھی مفید مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم