انسانی فطرت
ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے حرص و لالچ جیسی برائیوں میں مبتلا ہو سکتا ہے
لہٰذا ہر ایک کو چاہیے کہ وہ ان کے دینی و دنیاوی نقصانات سے مکمل طور پر آگاہ رہے
اور اپنے نفس کا جائزہ لیتا رہے۔چنانچہ لالچ اور حرص کی تعریف اور ان کے متعلق
حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔
لالچ:کسی
چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ حرص کا تعلق صرف مال ودولت کے ساتھ ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ
حرص تو کسی شے کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے اور وہ چیز کچھ بھی ہوسکتی ہے، چاہے
مال ہو یا کچھ اور!چنانچہ مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو مال کا حریص کہیں گے تو مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو کھانے
کا حریص کہا جائے گااور نیکیوں میں اضافے
کے تمنائی کو نیکیوں کا حریص جبکہ گناہوں
کا بوجھ بڑھانے والے کو گناہوں کا حریص کہیں گے۔
حضرت علامہ
عبدالمصطفے اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس،
مکان،سامان، دولت،عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (جنتی زیور، ص 111)
حرص فی نفسہ
بری شے نہیں اس کا اچھا یا برا ہونا اس کے استعمال پر ہے،اگر حرص نیکیوں پر ہو تو
یہ قابلِ تعریف ہے اور اگر دنیا وی معاملات میں (بری نیت کے ساتھ) ہو تو یہ قابل
مذمت ہے لہذا دنیوی غرض سے بچتے ہوئے اخروی یعنی نیکیوں کا حریص بنناچاہیے۔
گناہوں
کی حرص سے بچنے کا نسخہ: گناہوں کی حرص سے بچنا بے حد ضروری ہے،
اس کے لئے سب سے پہلے گناہوں کی پہچان حاصل کیجئے، پھر ان کے نقصانات پر غور کیجئے
کیونکہ ہمارا نفس فائدے کی طرف لپکتا اور نقصان سے بھاگتا ہے۔ اگر حقیقی معنوں میں
احساس ہوجائے کہ ہمیں گناہوں کی کیسی ہولناک سزا ملے گی تو ہم گناہ کے خیال سے بھی
بھاگیں۔حصول عبرت کے لئے مختلف گناہوں میں ملوث ہونے والوں کے لرزہ خیز انجام کی
حکایات پڑھنا بھی بے حد مفید ہے۔
مال
کی حرص کے متعلق حدیث مبارکہ:
اگر ابن آدم
کے پاس سونے کی ایک وادی ہو توچاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو
مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ سے توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول
فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث:
2417)
انسان فطرتاً
حریص ہے علامہ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی
تنبیہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک ایسا بخل ہوتا ہے جو اسے حریص (لالچی) بناتا ہے
جیسا کہ اس کی خبر اللہ نے قرآن میں بھی دی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ
تَمْلِكُوْنَ خَزَآىٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ
الْاِنْفَاقِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠(۱۰۰) (پ
15، بنی اسرائیل: 100) ترجمہ
کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو
انہیں بھی روک رکھتے اس ڈر سے کہ خرچ نہ ہوجائیں اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔ مکمل
پس یہ آیت ابن
آدم کے انتہائی حریص (لالچی) اور بخیل ہونے پردلیل ہے، ابن آدم اس پرندے سے بھی
زیادہ بخیل ہے جو ساحل سمندر پر اس خوف سے پیاسا مر جاتا ہے کہ کہیں پانی پینے سے
پانی ختم نہ ہو جائے اور اس کیڑے سے بھی زیادہ بخیل ہے جس کی خوراک مٹی ہے لیکن وہ
اس خوف سے بھوکا مر جاتا ہے کہ کہیں کھانے سے مٹی ختم نہ ہو جائے۔ (مرقاۃ
المفاتیح، 9/124، تحت الحدیث:5273)
دنیا کی محبت
تمام گناہوں کی جڑہے،یقینا دنیا کی زندگی تو بہت تھوڑی ہے جبکہ آخرت کی زندگی
ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ دنیا میں جتنا رہنا ہے اتنی دنیا کے
لئے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنی آخرت کے لئے تیاری کریں۔ الحمد للہ تبلیغ قرآن
و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں خوف خدا اور عشق
مصطفیٰ کے جام بھر بھر کے پلائے جاتے ہیں، آپ سے مدنی التجا ہے کہ دعوت اسلامی کے
مدنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے۔اللہ ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکال کر اپنی
اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کی محبت ڈال دے۔ آمین