کوئی بھی کام ہو، کوئی بھی شعبہ ہم نے دیکھا ہے سلف صالحین ہم سے بہتر ہی تھے۔ معاشی معاشرتی اخلاقی دینی ہر اعتبار سے ہم سے بہتر تھے۔ مطالعہ کی اہمیت سب جانتے ہیں لیکن انہیں اس کی اہمیت کا اور بھی زیادہ احساس تھا۔ ان میں بعض وہ تھے کہ ایک ایک کتاب کو سو سو پچاس مرتبہ پڑھ لیتے تھے۔ ہر وقت اپنے ساتھ کتاب رکھا کرتے تھے۔ کتاب کو اپنا بہترین رفیق مانتے تھے۔ ہمیں ان کی سیرت کا مطالعہ کرکے اپنے اندر شوق مطالعہ پیدا کرنا چاہیے۔ اسی ارادے سے آئیے چند حضرات کی سیرت کو ملاحظہ کیجیے۔

(1) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں : ایک دن مجلس مذاکرہ میں امام مسلم سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا۔ اس وقت آپ اس حدیث کے بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔ گھر آ کر اپنی کتابوں میں اس کی تلاش شروع کردی۔ قریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا بھی رکھا ہوا تھا، امام مسلم کے استغراق اور اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ کہ کھجوروں کی مقدار کی طرف آپ کی توجہ دہ نہ ہوسکی اور حدیث ملنے تک ک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالی ہوگیا اور غیر ارادی طور پر کھجوروں کا زیادہ کھا لینا ہی ان کی موت کا سبب بن گیا۔( تذكرة المحدثين، ص ١٢٣)

(2) امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کرتے ہیں : دوسرے لڑکے دجلہ کے کنارے کھیلا کرتے تھے اور میں کسی کتاب کے اوراق لے کر کسی طرف نکل جاتا اور الگ تھلگ بیٹھ کر مطالعے میں مشغول ہو جاتا تھا۔ مزید فرماتے ہیں : میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی تھی۔ جب کسی کتاب پر نظر پڑ جاتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ میں نے زمانہ طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا۔ مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات و اخلاق، ان کی اعلی ہمتی، قوتِ حافظہ، ذوق عبادت، اور علوم نادرہ کا ایسا اندازہ ہوا جو ان کتابوں کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنے زمانے کے لوگوں کی سطح پست معلوم ہونے لگی اور اس وقت کے طلبئہ علم کی کم ہمتی منکشف ہوگی۔ میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا جس میں چھ ہزار کتابیں تھیں، اسی طرح بغداد کے مشہور کتب خانے کتب الحنفیہ، کتب الحمیدی، کتب عبد الوہاب وغیرہ جتنے دسترس میں تھے سب کا مطالعہ کر ڈالا۔ (مطالعہ کیا کیوں کیسے؟ ص ٤٠)

(3) علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تذکرۃ الحفاظ جلد 3، صفحہ 114، میں حضرت خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ راہ چلتے بھی مطالعہ کیا کرتے تھے تاکہ آنے جانے کا وقت ضائع نہ ہو۔( علم اور علما کی اہمیت، ص ٢٣)

(4) حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں جب مولانا سردار احمد کو پڑھتے دیکھتا۔ مدرسہ میں، قیام گاہ پر حتی کہ جب مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہاتھ میں ہوتی ۔ اگر جماعت میں تاخیر ہوتی تو بجائے دیگر اذکار و اوراد کے مطالعہ میں مصروف جاتے۔(مطالعہ کیا کیوں کیسے؟ ص ٤٢ )

ہم اتنا تو مطالعہ نہیں کر سکتے لیکن پورے دن میں سے ایک آدھ کھنٹا ہی تو نکال سکتے ہیں۔ یہ بھی نہیں تو بارہ منٹ کم از کم۔ نکال لینے چاہیے۔ یہ بارہ منٹ روزانہ دینا بھی بہت ہوگا۔ اللہ تعالی ہمیں علم دین حاصل کرنے اور مطالعہ کرنے کا ذوق و شوق عطا فرمائے۔آمین!