مشہور مقولہ
ہے کہ لالچ بری بلا ہے۔لالچ نہ صرف بری بلا ہے بلکہ یہ ایک نہایت ہی بدخصلت ہے یہ
خصلت جسکو لگ جاۓ تو اسکاچھو ٹنا محال ہے۔کیو نکہ لالچ انسان کو حریص بنا دیتی ہے
اور لا لچ کی کوئی حد نہیں ہوتی یہ انسان کو اندھا بنا دیتی ہے اور انسان مزید سے
مزید تر کی خواہش کی وجہ سے اس میں پھنستا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان اپنا
ایمان تک بیچ ڈالتا ہے، بظاہر اس کو لگتا ہے کہ دنیاوی دولت کے باعث وہ کامیاب شخص
ہے در حقیقت وہ ناکام اور دنیا و آخرت میں ناکام ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک
میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
حدیث پاک میں
بھی لالچ کو نا پسند قرار دیا ہے اور اسکو ہلاکت و بربادی میں ڈالنے والی شے بتایا
گیا ہے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں: لالچ
جسکی اطاعت کی جائے، خواہش جسکی پیروی کی جائے اور بندے کا اپنے عمل کو پسند کرنا
یعنی خود پسندی۔ (معجم اوسط، 4/212، حدیث: 5754)
ایک اور جگہ
ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلا ک ہوئیں،لالچ
نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلا یا تو
انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑھ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
ان احادیث سے
واضح ہے کہ لالچ ہلاک کرنے اور برباد کرنے والی شے ہے گناہوں کی طرف رغبت دلانے
والی ہے، انسان کے کردارکو مسخ کر دیتی ہے، مال و زر کی لالچ خونی رشتوں میں
دڑاریں ڈال دیتی ہے نسل در نسل دشمنی کی بنیاد ڈال دیتی ہے، ایمان کو اور اللہ پر
توکل کو کمزور کر دیتی ہے انسان خود کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس میں غرور و
تکبر آجاتا ہے دیکھا جاۓ تو اس ایک لالچ کی وجہ سے دیگر باطنی امراض بھی جنم لیتے
ہیں۔
لالچی انسان
ایک اضطراب کا شکار ہتا ہے اسکا ذہن اسی توڑ جوڑ میں رہتا ہے کہ کس طرح میں اپنی
دولت کو مزید بڑھاؤں؟ ایسا کیا کروں کہ راتوں رات امیر ہوجاؤں، جسکی وجہ سے وہ
شارٹ کٹ استعمال کرتا ہے اورنقصان کر بیٹھتا ہے لالچ و حرص کی وجہ سے ذہنی حالت
ابتر ہوجاتی ہے ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے اور ایسے شخص میں قوت
فیصلہ ختم ہوجاتی ہے۔ لالچ کی وجہ سے انسان دنیا کی محبت اور مادی چیزوں کی محبت
میں گرفتار ہو جاتا ہے دین سے دور ہوجاتا ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اپنا
ایمان اپنا ضمیر بھی بیچ ڈالتا ہے،لالچ انسان کو سماجی تنہائی کا شکار بنادیتی ہے
کیونکہ ایسے افراد رشتوں پر دولت اور مادیت کو ترجیح دیتے ہیں وہ رشتے داروں دوست
احباب سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں کہ کہیں وہ ادھار نہ مانگ لیں یا کسی مالی مدد کا
تقاضہ نہ کر دیں اس وجہ سے لالچ اخلاقیات اور اقدار کو کمزور کر دیتی ہے اس سے
حقوق العباد تلف ہوتے ہیں الغرض لالچ انسان کو مادہ پرست بنا دیتی ہے۔
جہاں لالچ کے
نقصان ہیں وہاں ہم لالچ کو اپنے فائدے کیلیے بھی استعمال کر سکتے ہیں وہ اسطرح کہ
ہم زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کے لالچی بن جائیں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے
اور درود پاک پڑھنے کے لالچی بن جائیں لیکن خیال رہے کسی کے حقوق یا اپنی ذمہ داریاں
نہ تلف ہوں۔
یاد رہے پچھلی
قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں اور نام و نشان مٹ گئے لیکن انبیائے کرام نے کسی
لالچ کے بغیر دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا اور باقاعدہ اس کا اظہار بھی
فرمایا کہ تبلیغ سے ان کا مقصد مال یا کوئی منصب حاصل کرنا نہیں بلکہ وہ صرف اپنے
رب کی رضا اور اسکی طرف سے ملنے والے اجر کے طلبگار ہیں،اسی لیے ہم مسلمانوں کو
بھی چاہیے کہ بغیر لالچ و غرض کے حقوق اللہ، حقوق العباد اور تبلیغِ دین کا فریضہ
انجام دیں، کیونکہ لالچ ہلاک اور ناکام کرنے والی شے ہے۔
اللہ پاک ہمیں
اس موذی خصلت سے نجات دے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ